مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

بسم الله الرحمن الرحيم
آیت اللہ سیستانی کی رائےکے مطابق ہندوستان میں بدھ (10-4-2024) ماہ شوال کی پہلی اور عید سعید فطر ہے۔

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

برتنوں کے احکام ← → متنجّس چیزوں کے پاک ثابت ہونے کے راستے

وسواس

مسئلہ 246: وسوسہ کرنے والا انسان نجس چیز کو دھونے میں عام انسان کی طرح یقین پیدا نہیں کرتا اگر وہ عام انسان کی طرح نجس چیز کو پاک کرے تو کافی ہے اور شریعت کی نظر میں پاک اور نجس کے مسئلے میں حد سے زیادہ احتیاط کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے اور انسان کے لیے چاہے وسواسی ہو یا غیر وسواسی ضروری نہیں ہے کہ تحقیق کرے اور دیکھے کہ اس کا بدن یا لباس یادوسری چیز نجس ہوئی ہے یا نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دقت کرے اور دیکھے کہ کیا فلاں نجس چیز دوسری چیز سے ملی ہے یا نہیں اگر ملی ہے تو سرایت کرنے والی تری تھی یا نہیں اورا ن تمام مقامات میں مذکورہ چیزوں کے پاک ہونے کا حکم ہوگا۔

مسئلہ 247: وسوسہ کی بیماری کے علاج کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ طولانی مدت تک اس کی نسبت سے بے توجہی کرے اس بیماری کا زمانہ جتنا زیادہ ہوگا اس کے علاج کے لیے اتنا ہی طولانی مدت تک وسوسہ کی طرف بے توجہی کرنی پڑے گی۔ وسوسہ کرنے والے شخص کواس بات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اگر اس نے اپنے وسوسہ کی پرواہ نہ کی اور اس کی طرف توجہ نہ دی تو گناہ کا مرتکب نہیں ہوگا اور قیامت کے دن اس پر عذاب نہیں ہوگا اگرچہ اس نے واقع کے خلاف عمل کیاہو۔

یقینی طور پر ان اسباب میں سے جو وسواسی انسان کو وسوسہ کے مطابق عمل کرنے کی طرف کھینچتا ہے عمل کے باطل ہونے کا ڈر ہے اور یہ کہ ممکن ہے وہ عذاب کا مستحق ہوجائے حالانکہ ایسا نہیں ہے وسوسہ کی مخالفت اور اس کی طرف توجہ نہ دینا کوئی گناہ نہیں ہے، اگرچہ انسان کا عمل واقعیت میں صحیح نہیں تھا اور باطل تھا بلکہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں معذور ہے مثلاً جس وقت انسان کو اپنے بدن کے پاک ہونے کے بارے میں شک ہو اور اس نے پاک پر بنا رکھی اور وضو کیا نماز پڑھی لیکن خدا کے علم میں اس کا بدن نجس تھا اور اس کی نماز اور وضو باطل تھا خدا کی بارگاہ میں کوئی مسؤلیت (ذمہ داری) نہ ہوگی کیونکہ شرعی وظیفہ کے مطابق اپنے وسوسہ کی پرواہ نہ کرکے عمل کیا ہے اور فقیہ کا فتویٰ مکلف کے لیے حجت ہے اگر مکلف فقیہ کے فتویٰ کے مطابق عمل کرے اور خدا کے علم میں یہ عمل واقع کے خلاف ہو تو اس پر سرزنش و ملامت اور عذاب نہیں ہوگا، مثلاً اگر فقیہ نے فتویٰ دیا اَلکُحل پاک ہے اور مکلف نے اس فتویٰ کی بنا پر الکحل سے پرہیز نہیں کیا اور الکحل سے آلودہ لباس اور بدن کے ساتھ وضو کیا نماز پڑھی لیکن حقیقت میں الکحل نجس تھا جو نماز باطل پڑھی ہے اس کی وجہ سے قیامت میں عذاب نہیں ہوگا کیونکہ خدا کی بارگاہ میں حجت رکھتا ہے اور خدا سے خطاب کرے گا اے میرے پروردگار! تو نے اجازت دی تھی کہ فقیہ کے فتویٰ کے مطابق عمل کروں میرے مرجع تقلید نے الکحل کو پاک ہونے کا فتویٰ دیا لہٰذا میں نے اس سے پرہیز نہیں کیا اس کے باوجود میں مستحقِ عذاب ہوں؟ یقیناً اس سے خطاب ہوگا تمہارا عذر قابلِ قبول ہے، اور تمہارے لیے كوئی حرج نہیں ہے وسوسہ کرنے والے شخص کی بھی حالت اسی طرح ہے کہ کیونکہ تمام فقہائے بزرگوار نے معتبر روایات کی بنیا د اور روشنی میں فتویٰ دیا ہے کہ وسوسہ کرنے والا شخص اپنے وسوسے کی پرواہ نہ کرے اور جس چیز کے پاک ہونے کے بارے میں شک ہو اُ س کے پاک ہونے پر بنا رکھے اور اگر وسواسی انسان کسی چیز کو نجس جانے لیکن عام انسان کے لیے جو وسوسہ میں مبتلا نہیں ہے انہیں اس کی نجاست کا علم نہ ہو تو وسواسی انسان اپنے یقین کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس چیز کی طہارت پر بنا رکھے گا ، اگر وسوسہ کرنے والے نے اس شرعی فتویٰ پر عمل کیا تو وہ پروردگار کی بارگاہ میں معذور ہے، اگر چہ واقعیت کے خلاف عمل کیا ہو اور واقعیت میں اپنی نماز نجاست کی حالت میں پڑھی ہو یا نجس کھانا کھایا ہو اور اگر شیطان یا شیطانی فکر وسواسی شخص کے پاس آئے کہ تمہارا وضو باطل ہے، تمہاری نماز باطل ہے، تمہارا بدن نجس ہے تو شیطان سے مخاطب ہو کر کہے میرے لیے اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ مہربان اور حکیم خداوند عالم کی بارگاہ میں معذور ہوں اور وہ مجھ پر عذاب نہیں کرے گا۔

خلاصے کے طور پر وسوسہ کے چھوڑنے کا بہترین راستہ اس کی طرف توجہ نہ کرنا اورا حکام شریعت سے زیادہ سے زیادہ آشنائی اور عام لوگوں کے عمل کی طرح عمل کرنا ہے اور جس مقدار میں شریعت نے حکم دیا اس پر اکتفا کرے اور اس سے زیادہ تجاوز نہ کرے اور یہ جان لے کہ وسوسہ، شیطانی القائات میں سے ہے، معصومین علیہم السلام کی روایتوں میں وسوسہ کو شیطان کی اطاعت اور اس کی پیروی سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے چھٹکارے کے لیے قطعی مستحکم ارادہ، پروردگار کی توفیق، خدا کی بارگاہ میں دعا اور ائمہ معصومین علیہم السلام جو ہدایت کے ابواب میں سے ہیں ان کی مدد کی ضرورت ہے۔[43]


[43] روایات میں ہے عبد اللہ ابن سنان کہتے ہیں : امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایسے شخص کا نام لیا جو وضو اور نماز میں وسوسہ کا شکار تھا میں نے کہا: وہ عاقل شخص ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: کیسے عاقِل ہے جو شیطان کی اطاعت کرتا ہے میں نے سوال کیا: کس طرح شیطان کی اطاعت کرتا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: خود اسی سے سوال کرو اور پوچھو یہ حالت کہاں سے آئی اور اس کا منشا کیا ہے؟ کہے گا: یہ رویّہ شیطانی عمل ہے " وسائل الشیعہ، ج1، ص63، باب 10 مقدمہ العبادات کے ابواب سے ح1"۔
برتنوں کے احکام ← → متنجّس چیزوں کے پاک ثابت ہونے کے راستے
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français