مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

مستحبی روزے کے خاص احکام ← → کفارے کے دوسرے احکام

والد کے ماہ رمضان کے قضا روزے (کہ احتیاط لاز م کی بنا پر بڑے بیٹے پر واجب ہے)

مسئلہ 2094: والد کے انتقال کےبعد احتیاط لازم کی بنا پر بڑے بیٹے پر لازم ہے کہ ماہ رمضان کے قضا روزوں کو اس تفصیل کے مطابق جو والد کی قضا نماز کی فصل میں بیان ہوئی بجالائے اور ہر دن روزہ رکھنے کے بدلے ایک مدّ (تقریباً ۷۵۰ گرام) طعام بھی فقیر کو دے سکتا ہے تو اس صورت میں والد کے روزوں کی قضا اس پر واجب نہیں ہے، لیکن اگر میت نےوصیت کی ہو کہ اس کے روزوں کےلیے اجیر معین کریں تو طعام دینا کافی نہیں ہے اور اس صورت میں لازم ہے کہ اس کے ایك تہائی مال سے قضا روزوں کے لیے کسی شخص کو اجیر معین کریں ۔[197]

مسئلہ 2095: اگر والد نے ماہ رمضان کے روزوں کے علاوہ کوئی دوسرا واجب روزہ جیسے نذر کا روزہ نہ رکھا ہو یا کسی کےلیے اجیر ہوا ہو اور روزہ نہ رکھا ہو تو اس کی قضا بڑے بیٹے پر لازم نہیں ہے۔

مسئلہ 2096: ماں کے انتقال کے بعد احتیاط مستحب ہے کہ بڑا بیٹا اس کے ماہ رمضان کے قضا روزوں کو اس تفصیل کے مطابق جو والد کی قضا نماز کی فصل میں بیان کی گئی بجالائے اور یہ بھی کافی ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مد (تقریباً 750 گرام) فقیر کو دے لیکن اگر ماں نے وصیت کی ہو کہ اس کے روزوں کے لیے اجیر معین کریں تو طعام کا دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس صورت میں اس کے ثلث (تہائی) مال سے قضا روزوں کے لیے اجیر معین کرنا لازم ہے۔

مسافر کے روزے کے احکام

مسئلہ 2097: جس مسافر پر سفر میں چار رکعتی نماز کا دو رکعت پڑھنا لازم ہے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا خواہ واجب روزہ ہو یا مستحب اور اس حکم سے مندرجہ ذیل مقامات مستثنیٰ ہیں:

الف: جو حج تمتع میں واجب قربانی نہیں کر سکتا واجب ہے کہ اس کے بدلے دس دن روزہ رکھے جوشروع کے تین دن اسی حج کے سفر میں روزہ رکھنا ہوگا، گرچہ مسافر ہو اور باقی سات دن اپنے وطن واپسی کے بعد بجالائے اور اس کے احکام کی وضاحت مناسک حج میں بیان کی گئی ہے۔

ب: جو شخص حج تمتع کے مناسک میں وقوف عرفات میں غروب آفتاب سے پہلے سرزمین عرفات سے خارج ہو جائے اور دوبارہ عرفات نہ پلٹے تو لازم ہے کہ ایک اونٹ کفارہ دے اور اگر یہ کفارہ نہ دے سکتا ہو تو لازم ہے کہ اٹھارہ دن روزہ رکھے اور یہ روزہ وہیں پر حالتِ سفر میں مکہ یا واپسی کے وقت راستے میں یا وطن واپس ہونے کے بعد رکھ سکتا ہے اور اس کے احکام کی تفصیل کتاب مناسک حج میں بیان کی گئی ہے۔

ج: جس شخص نے کسی معین دن مستحب روزے کے لیے نذر کی ہے کہ اسے سفر میں رکھے یا یہ کہ سفر میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزہ رکھے۔ اس کی وضاحت مستحبی روزے کی فصل میں بیان کی جائے گی۔

د: جو مسافر مدینہٴ منورہ میں طلب حاجت کے لیے تین دن روزہ رکھنا چاہتا ہے ، جس کی تفصیل مستحبی روزے کی فصل میں بیان کی جائے گی۔

مسئلہ 2098: جس مسافر کی نماز کامل ہے جیسے وہ شخص جس کا کام سفر ہے یا اس کا سفر معصیت ہے تو وہ سفر میں روزہ رکھ سکتا ہے بلکہ واجب معین روزے میں جیسے ماہ رمضان کا روزہ لازم ہے کہ سفر میں ہی روزہ رکھے۔

مسئلہ 2099: ماہ رمضان میں سفر کرنا کوئی حرج نہیں ہے لیکن روزے سے فرار کے لیے سفر کرنا مکروہ ہے خواہ تیئسویں ماہ رمضان گزرنے سے پہلے ہو یا اس کے بعدہو اور اسی طرح مجموعی طور پر ماہ رمضان میں سفر کرنا کراہت رکھتا ہے مگر یہ کہ حج یا عمرہ یا کسی ضرورت کے لیے ہو۔

مسئلہ 2100: اگر ماہ رمضان کے روزہ کے علاوہ کوئی دوسرا معین روزہ انسان پر واجب ہو چنانچہ اجارے اور اس کے مانند ہو یا اعتکاف کا تیسرا دن ہو تو اس دن سفرنہیں کر سکتا اور اگر سفر میں ہو، چنانچہ ممکن ہو کہ دس دن کسی جگہ قصدکرے تو لازم ہے کہ قصد کركے روزہ رکھے اور مستحب روزے کے احکام جو نذر کے ذریعے انسان پر واجب ہوئے ہیں مستحبی روزے کی فصل میں ذکر کئے جائیں گے۔

مسئلہ 2101: جس شخص نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے سفر میں روزہ رکھا ہے (واجب یا مستحب روزہ ہو) اور دن میں ہی مسئلے کی طرف متوجہ ہو جائے اس کا روزہ باطل ہے اور اگر مغرب کے بعد مسئلے کا علم ہو جو روزہ رکھا ہے وہ صحیح ہے، اس بات میں فرق نہیں ہے کہ مسافر پر روزہ واجب نہ ہونے کا اصل حکم نہ جانتا ہو یا یہ کہ اصل حکم جانتا ہو لیکن مسافر کے احکام کی بعض خصوصیات کو نہ جاننے کی وجہ سے روزہ رکھا ہو ۔ [198]

مسئلہ 2102: جو شخص جانتا ہے کہ سفر میں روزہ شرعی حیثیت نہیں رکھتا اگر مسئلے کا حکم اپنی حالت پر تطبیق دینے میں غلطی کرنے کی وجہ سے[199] خود کو مسافر نہ سمجھے اور روزہ رکھے اور مغرب کے بعد اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہو اس کا روزہ صحیح ہے مثلاً جو شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کا سفر فلاں معین جگہ تک آٹھ فرسخ سے کم ہے اور روزہ رکھا ہو پھر مغرب کے بعد معلوم ہو کہ فاصلہ آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ تھا لیکن اگر دن میں متوجہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے۔

مسئلہ 2103: اگر انسان بھول جائے کہ مسافر ہے یا بھول جائے کہ مسافر کے لیے روزرہ رکھنا صحیح نہیں ہے اور سفر میں روزہ رکھے تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر گرچہ مغرب کے بعد متوجہ ہو پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے۔

مسئلہ 2104: اگر روزے دار اذان ظہر کے بعد سفر کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر لازم ہے کہ اپنے روزے کو تمام کرے خصوصاً اگر رات سے سفر کی نیت نہ رکھتا ہو اور اگر اس احتیاط واجب پر عمل کرے اور روزہ تمام کرے تو اس کی قضا لازم نہیں ہے۔

مسئلہ 2105: اگر روزے دار اذان ظہر سے پہلے سفر کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا خصوصاً اگر رات سے سفر کی نیت کی ہو لیکن لازم ہے کہ حد ترخص تک پہونچے سے پہلے ایسا کوئی کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دے ورنہ اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ نمبر 2044 میں ذکر کی گئی اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ 2106: اگر مسافر ماہ رمضان میں اذان ظہر سے پہلے اپنے وطن پہونچ جائے یا ایسی جگہ پہونچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہے ، چنانچہ ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام نہ دیا ہو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن روزہ رکھے اور اس صورت میں قضا نہیں ہے لیکن اگر ایسا کام جو روزے کو باطل کرتا ہے انجام دیا ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے، بعد میں قضا بجالائے گا۔

مسئلہ 2107: اگر مسافر اذان ظہر کے بعد اپنے وطن پہونچ جائے یا ایسی جگہ پہونچے جہاں دس دن رکنا چاہتا ہے تو اگر سفرمیں مفطرات روزہ میں سے کسی ایک کو انجام دیا ہو اس کا روزہ باطل ہے ، اور لازم ہے کہ اس دن کی قضا بجالائے اور اگر مفطر انجام نہیں دیا ہے اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے ، بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہے اور ہر صورت میں آئندہ اس کی قضا بجالائے ۔

مسئلہ 2108: اذان ظہر سے پہلے یا بعد میں سفر شروع کرنے کا معیار خود شہر سے خارج ہونا ہے نہ حد ترخص تک پہونچنا اس بنا پر جو شخص اذان ظہر سے پہلے اپنے وطن سے خارج ہو ا ہے لیکن حد ترخص سے اذان ظہر کے بعد خارج ہوگا تو روزے کے لیے اس مسافر کا حکم رکھتا ہے جو ظہر سے پہلے مسافرت پر گیا ہے اور اسی طرح وطن واپس ہونے میں بھی معیار خود شہر میں پہونچنا ہے اس بنا پر اگر انسان اذان ظہر سے پہلے وطن کے قریب پہونچے اس طرح سے کہ شہر کے اطراف کے گھر دکھائی دے رہے ہوں لیکن خود شہر میں اذان ظہر کے بعد داخل ہو تو روزے کے لیے اس مسافر کا حکم رکھتا ہے جو اذان ظہر کے بعد اپنے وطن پہونچا ہے۔


[197] قابلِ ذکر ہےکہ والد کے قضا روزے بڑے بیٹے پر واجب ہونے کے تمام احکام اور شرائط والد کی قضا نماز کی طرح ہے، اس لیے اس کے احکام سے مزید آشنائی کے لیے والد کی قضا نماز کی فصل كی طرف رجوع کریں۔

[198] اس مسئلہ كی مزید وضاحت كے لیے جو احكام مسافر كے خصوصیات نہیں جانتا تھا مسئلہ ۱۶۵۹ كی مثالوں (مسافر كی نماز كے مسائل نہ جاننے) كی طرف رجوع كرے۔

[199] اصطلاح میں اسے جاہل بہ موضوع کہا جاتا ہے۔
مستحبی روزے کے خاص احکام ← → کفارے کے دوسرے احکام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français