مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

زکوۃ کے احکام ← → روزے کے احکام

خمس کے احکام

مسئلہ (۱۷۶۸)خمس سات چیزوں پرواجب ہے:

۱:
) کاروبار (یاروزگار) کامنافع۔

۲:
)معدنی کانیں ۔

۳:
)خزانہ۔

۴:
)حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہوجائے۔

۵:
)غوطہ خوری(یعنی سمندر میں ڈوبکی لگانے) سے حاصل ہونے والے سمندری موتی۔

۶:
)جنگ میں ملنے والامال غنیمت۔

۷:
)مشہور قول کی بناپروہ زمین جوذمی کافر کسی مسلمان سے خریدے۔

ذیل میں ان کے احکام تفصیل سے بیان کئے جائیں گے۔

۱ -
کاروبار کامنافع

مسئلہ (۱۷۶۹)جب انسان تجارت، صنعت وحرفت یادوسرے کام دھندوں سے روپیہ پیسہ کمائے مثال کے طورپراگرکوئی اجیربن کرکسی متوفی کی نمازیں پڑھے اور روزے رکھے اوراس طرح کچھ روپیہ کمائے لہٰذا اگروہ کمائی خوداس کے اوراس کے اہل و عیال کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ زائد کمائی کا خمس( یعنی پانچواں حصہ) اس طریقے کے مطابق دے جس کی تفصیل بعدمیں بیان ہوگی۔

مسئلہ (۱۷۷۰)اگرکسی کوکمائی کئے بغیر کوئی آمدنی ہوجائے(سوائے ان مقامات کے جن کو بعد میں آنے والے مسائل میں علیٰحدہ کیا جائےگا) مثلاً کوئی شخص اسے بطور تحفہ کوئی چیزدے اور وہ اس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۷۷۱)عورت کوجو مہرملتاہے اورشوہر،بیوی کوطلاق خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے اور اسی طرح ملنے والی دیت ان پرخمس نہیں ہے اوراسی طرح جومیراث انسان کوملے اس کابھی میراث کے معتبرقواعدکی روسے یہی حکم ہے اوراگراس مسلمان کوجوشیعہ ہے کسی اور ذریعے سے مال ملے جیسے تعصیب[7] تواس مال کو ’فوائد‘‘ میں شمار کیا جائے گااورضروری ہے کہ اس کاخمس دے۔اسی طرح اگر اسے باپ اوربیٹے کے علاوہ کسی اور کی طرف سے میراث ملے کہ جس کاخوداسے گمان تک نہ ہوتو(احتیاط واجب) یہ ہے کہ وہ میراث اگراس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتواس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۷۷۲)اگرکسی شخص کوکوئی میراث ملے او راسے معلوم ہوکہ جس شخص سے اسے یہ میراث ملی ہے اس نے اس کاخمس نہیں دیاتھاتوضروری ہے کہ وارث اس کاخمس دے۔ اسی طرح اگرخود اس مال پرخمس واجب نہ ہواوروارث کوعلم ہوکہ جس شخص سے اسے وہ مال ورثے میں ملاہے اس شخص کے ذمے خمس واجب الاداتھاتوضروری ہے کہ اس کے مال سے خمس اداکرے۔ لیکن دونوں صورتوں میں جس شخص سے مال ورثے میں ملاہواگروہ خمس دینے کامعتقدنہ ہویایہ کہ وہ خمس دیتاہی نہ ہوتو ضروری نہیں کہ وارث وہ خمس اداکرے جو اس شخص پرواجب تھا۔

مسئلہ (۱۷۷۳)اگرکسی شخص نے کفایت شعاری کے سبب سال بھرکے اخراجات کے بعدکچھ رقم جمع کی ہوتوضروری ہے کہ اس بچت کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۷۷۴)جس شخص کے تمام اخراجات کوئی دوسراشخص برداشت کرتاہو ضروری ہے کہ جتنامال اس کے ہاتھ آئے اس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۷۷۵)اگرکوئی شخص اپنی جائدادکچھ خاص افرادمثلاًاپنی اولادکے لئے وقف کردے اوروہ لوگ اس جائداد میں کھیتی باڑی اورشجرکاری کریں اوراس سے منافع حاصل کریں اوروہ کمائی ان کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ اس کمائی کاخمس دیں ۔نیزیہ کہ اگروہ کسی اورطریقے سے اس جائداد سے نفع حاصل کریں مثلاً اسے کرائے پردے دیں توضروری ہے کہ نفع کی جومقدار ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہواس کاخمس دیں ۔

مسئلہ (۱۷۷۶)جومال کسی فقیرنے واجب صدقے جیسے کفارات اور ردّ مظالم یامستحب صدقے کے طورپرحاصل کیاہو اگروہ اس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہویاجومال اسے دیاگیاہواس سے اس نے نفع کمایاہومثلاً اس نے ایک ایسے درخت سے جو اسے دیاگیاہوپھل حاصل کیاہو اور وہ اس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتو (احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہے کہ اس کاخمس دے۔ لیکن جو مال اسے بطورخمس یازکوٰۃ مستحق کے عنوان سے دیاگیاہوضروری نہیں کہ اس کاخمس دے لیکن اس کی منفعت سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوتو اس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۷۷۷)اگرکوئی شخص ایسی رقم سے کوئی چیزخریدے جس کاخمس نہ دیاگیاہو یعنی بیچنے والے سے کہے کہ ’’میں یہ چیزاس رقم سے خریدرہاہوں ‘‘ اگربیچنے والا شیعہ اثنا عشری ہوتوظاہر ہے کہ کل مال کے متعلق معاملہ درست ہے اورخمس کا تعلق اس چیزسے ہو جاتاہے جواس نے اس رقم سے خریدی ہے اوراس معاملے میں حاکم شرع کی اجازت اور دستخط کی ضرورت نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۷۸)اگرکوئی شخص کوئی چیزخریدے اورمعاملہ طے کرنے کے بعداس کی قیمت اس رقم سے اداکرے جس کا خمس نہ دیاہوتوجومعاملہ اس نے کیاہے وہ صحیح ہے اور جو رقم اس نے بیچنے والے کودی ہے اس کے خمس کے لئے وہ خمس کے مستحقین کا مقروض ہے۔

مسئلہ (۱۷۷۹)اگرکوئی شیعہ اثناعشری مسلمان کوئی ایسامال خریدے جس کاخمس نہ دیاگیاہوتواس کاخمس بیچنے والے کی ذمہ داری ہے اورخریدار کے ذمے کچھ نہیں ۔

مسئلہ (۱۷۸۰)اگرکوئی شخص کسی شیعہ اثنا عشری مسلمان کو کوئی ایسی چیز بطور عطیہ دے جس کا خمس نہ دیاگیاہو تواس کے خمس کی ادائیگی کی ذمہ داری عطیہ دینے والے پر ہے اور (جس شخص کو عطیہ دیاگیاہے) اس کے ذمے کچھ نہیں ۔

مسئلہ (۱۷۸۱)اگرانسان کوکسی کافرسے یاایسے شخص سے جوخمس دینے پراعتقاد نہ رکھتا ہوکوئی مال ملے تواس مال کاخمس دیناواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۸۲)تاجر،دوکان دار، ملازمت پیشہ،کاری گراوراس قسم کے دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت سے جب انہوں نے کاروبارشروع کیاہو،ایک سال گزر جائے توجوکچھ ان کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہواس کاخمس دیں اور اسی طرح وہ خطیب و ذاکر اور ان کے جیسے افراد اگر چہ ان کی درآمد سال کے مخصوص دنوں میں ہوتی ہواگر اس سے بڑے بڑے اخراجات پورے ہوجاتےہوں اورجو شخص کسی کام دھندے سے کمائی نہ کرتاہوکہ جس سے زندگی کے اخراجات پورا کرسکے اور حکومت اور عوام کی اعانت سے خرچ چلاتاہواگراسے اتفاقاً کوئی نفع حاصل ہوجائے توجب اسے یہ نفع ملے اس وقت سے ایک سال گزرنے کے بعدجتنی مقداراس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو ضروری ہے کہ اس کاخمس دے لہٰذا ہر منفعت کےلئے جداگانہ سال قرار دے سکتاہے۔

مسئلہ (۱۷۸۳)سال کے دوران جس وقت بھی کسی شخص کو منافع ملے وہ اس کا خمس دے سکتاہے اور اس کے لئے یہ بھی جائزہے کہ سال کے ختم ہونے تک اس کی ادائگی کو مؤخر کردے لیکن اگر جانتا ہو کہ آخر سال تک اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی تو( احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہےکہ فوراً اس کا خمس دے اور اگروہ خمس ادا کرنے کے لئے عیسوی (رومن کیلنڈر) اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۱۷۸۴)اگر کسی شخص کو منفعت حاصل ہو اور وہ سال کے دوران مرجائے توضروری ہے کہ اس کی موت تک کے اخراجات اس منافع میں سے منہاکرکے باقی ماندہ کا فوراً خمس دیاجائے۔

مسئلہ (۱۷۸۵)اگرکسی شخص کے بغرض تجارت خریدے ہوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اوروہ اسے نہ بیچے اور سال کے دوران اس کی قیمت گرجائے توجتنی مقدار تک قیمت بڑھی ہواس کاخمس واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۸۶)اگرکسی شخص کے بغرض تجارت خریدے ہوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اور وہ اس امید پر کہ ابھی اس کی قیمت اوربڑھے گی اس مال کوسال کے خاتمے کے بعد تک فروخت نہ کرے اورپھراس کی قیمت گرجائے توجس مقدارتک قیمت بڑھی ہو اس کا خمس دینا (احتیاط کی بناء پر)واجب ہے۔

مسئلہ (۱۷۸۷)کسی شخص نے مال تجارت کے علاوہ کوئی مال خریدکریااسی طرح کسی طریقے سے حاصل کیاہوجس کاخمس وہ اداکرچکاہوتواگراس کی قیمت بڑھ جائے اوروہ اسے بیچ دے توضروری ہے کہ جس قدراس چیزکی قیمت بڑھی ہے اس کاخمس دے۔ اسی طرح مثلاً اگرکوئی درخت خریدے اوراس میں پھل لگیں یا گوشت حاصل کرنے کےلئےبھیڑ خریدے اور اس کی حفاظت کے دوران وہ بھیڑموٹی ہوجائے تو ضروری ہے کہ جواضافہ ہواہے اس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۷۸۸) اگر کسی نے اس مال سے باغ لگائے جس کا خمس دیا ہے یا خمس اس سے متعلق نہیں ہوا ہےاورتاکہ اس کی قیمت بڑھ جانے پر اس کو بیچ دے گا تو ضروری ہے کہ پھلوں ، درختوں کی نشوونما، وہ چھوٹے پودے ہو خود اُگ آئے ہیں یا اس نے اگایا ہے اور خشک ٹہنیاں جو علیٰحدہ کرنے اور استفادہ کرنے کے لائق ہیں نیز باغ کی اضافی قیمت کا خمس دے لیکن اگر اس کا ارادہ یہ رہا ہے کہ ان درختوں کے پھل بیچ کر ان کی قیمت سے نفع کمائے گا تو اضافی قیمت کا خمس واجب نہیں ہے اور بقیہ چیزوں پر خمس ہے۔

مسئلہ (۱۷۸۹)اگرکوئی شخص بیدمشک اورچناروغیرہ کے درخت لگائے توضروری ہے کہ ہرسال ان کے بڑھنے کاخمس دے اوراسی طرح اگرمثلاًان درختوں سے نفع کمائےجن کی شاخیں عموماً ہرسال تراشی جاتی ہیں اگر سال کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو اُن پر خمس دینا ضروری نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۰)اگر کسی کی تجارت کے متعدد ذرائع ہوں مثلاً اپنے سرمایہ سے کچھ شکر اور کچھ چاول خریدا ہو اور ان سب کا تجارتی حساب و کتاب جیسے خریداری ، لانا لے جانا ،تجوری او رفائدہ و نقصان سب ایک ہوں تو ضروری ہےکہ آخری سال میں اس کے اخراجات نکالنے کے بعد جو مال میں اضافہ ہواس کا خمس دے لہٰذا اگر تجارت کے شعبہ میں فائدہ اور دوسرے میں نقصان ہو اہوتو ایک شعبہ کے نقصان کی بھرپائی دوسرے شعبہ کے فائدہ سے کرسکتا ہے لیکن اگرمال حاصل کرنے کے دو مختلف ذرائع ہوں مثلاً تجارت اور زراعت یا پھر ذریعہ ایک ہو لیکن حساب و کتاب ایک دوسرے سے الگ ہو تو اس صورت میں (احتیاط واجب کی بناء پر) ایک شعبہ کے نقصان کی پھرپائی دوسرے شعبہ کے فائدہ سے نہیں کرسکتا ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۱)انسان جواخراجات فائدہ حاصل کرنے کے لئے مثلاً دلالی اوربار برداری کے سلسلے میں خرچ کرے یا پھر استعمال ہونے والی چیزوں اور وسائل میں نقص پیدا ہوجائے توانہیں منافع میں سے منہاکرسکتاہے اور اتنی مقدار کا خمس اداکرنالازم نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۲)کاروبار کے منافع سے کوئی شخص سال بھرمیں جوکچھ خوراک، لباس، گھر کے سازوسامان، مکان کی خریداری، بیٹے کی شادی، بیٹی کے جہیز اورزیارات وغیرہ پرخرچ کرے اس پرخمس نہیں ہے بشرطیکہ ایسے اخراجات اس کی حیثیت سے زیادہ نہ ہوں ۔

مسئلہ (۱۷۹۳)جومال انسان منت اورکفارے پرخرچ کرے وہ سالانہ اخراجات کا حصہ ہے۔اسی طرح وہ مال بھی اس کے سالانہ اخراجات کاحصہ ہے جووہ کسی کوتحفے یا انعام کے طورپردے بشرطیکہ اس کی حیثیت سے زیادہ نہ ہو۔

مسئلہ (۱۷۹۴)اگرانسان اپنی لڑکی کی شادی کے وقت تمام جہیزاکٹھاتیارنہ کرسکتا ہو تووہ اسے کئی سالوں میں تھوڑاتھوڑا کرکے جمع کرسکتاہے چنانچہ اگرجہیزتیارنہ کرنااس کی شان کے خلاف ہواور وہ سال کے دوران اسی سال کے منافع سے کچھ جہیز خریدے جو اس کی حیثیت سے بڑھ کرنہ ہو اور عرف میں اس مقدار میں مہیا کیا جانے والا جہیزاس سال کے اخراجات میں شمار ہوتا ہوتواس پرخمس دینالازم نہیں ہے اور اگروہ جہیزاس کی حیثیت سے بڑھ کرہویاایک سال کے منافع سے دوسرے سال میں تیار کیاگیاہوتواس کا خمس دینا ضروری ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۵)جومال کسی شخص نے حج اوردوسری زیارات کے سفر پرخرچ کیاہووہ اس سال کے اخراجات میں شمار ہوتاہے جس سال میں خرچ کیا جائے اوراگراس کاسفر سال سے زیادہ طولانی ہو جائے توجوکچھ وہ دوسرے سال میں خرچ کرے اس کاخمس دینا ضروری ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۶)جوشخص کسی پیشے یاتجارت وغیرہ سے منافع حاصل کرے اگراس کے پاس کوئی اورمال بھی ہوجس پرخمس واجب نہ ہوتووہ اپنے سال بھرکے اخراجات کا حساب فقط اپنے منافع سے کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۷۹۷)جوکھانے کا سامان کسی شخص نے سال بھراستعمال کرنے کے لئے اپنے منافع سے خریداہواگرسال کے آخر میں اس میں سے کچھ بچ جائے توضروری ہے کہ اس کا خمس دے اوراگرخمس اس کی قیمت کی صورت میں دیناچاہے اورجب وہ سامان خریدا تھااس کے مقابلے میں اس کی قیمت بڑھ گئی ہوتوضروری ہے کہ سال کے خاتمے پرجوقیمت ہو اس کاحساب لگائے۔

مسئلہ (۱۷۹۸)کوئی شخص خمس دینے سے پہلے اپنے منافع میں سے گھریلواستعمال کے لئے سامان خریدے اگراس کی ضرورت منافع حاصل ہونے والے سال کے بعدختم ہو جائے توضروری نہیں کہ اس کا خمس دے اور اگردوران سال اس کی ضرورت ختم ہو جائے توبھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگروہ سامان ان چیزوں میں سے ہو جوعموماً آئندہ برسوں میں استعمال کے لئے رکھی جاتی ہوں جیسے سردی اورگرمی کے کپڑے توان پرخمس نہیں ہوتا۔ اس صورت کے علاوہ جس وقت بھی اس سامان کی ضرورت ختم ہوجائے احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کاخمس دے اوریہی صورت زنانہ زیورات کی ہے جب کہ عورت کاانہیں بطور زینت استعمال کرنے کا زمانہ گزرجائے اس پر خمس نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۷۹۹)اگرکسی شخص کوکسی سال میں منافع نہ ہوتووہ اس سال کے اخراجات کو آئندہ سال کے منافع سے منہانہیں کرسکتا۔

مسئلہ (۱۸۰۰)اگرکسی شخص کوسال کے شروع میں منافع نہ ہواوروہ اپنے سرمائے سے خرچ اٹھائے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اسے منافع ہوجائے تواس نے جو کچھ سرمائے میں سے خرچ کیاہے اسے منافع سے منہاکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۰۱)اگرسرمائے کاکچھ حصہ تجارت وغیرہ میں ڈوب جائے توجس قدر سرمایہ ڈوباہوانسان اتنی مقداراس سال کے منافع میں سے منہاکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۰۲)اگرکسی شخص کے مال میں سے سرمائے کے علاوہ کوئی اورچیزضائع ہو جائے لیکن اگراسے اسی سال میں اس چیز کی ضرورت پڑجائے تووہ اس سال کے دوران اپنے منافع سے مہیاکرسکتاہے اور اس پر خمس نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۰۳)اگرکسی شخص کوپورےسال کوئی منافع نہ ہواوروہ اپنے اخراجات قرض لے کر پورے کرے تووہ آئندہ سالوں کے منافع سے قرض کی رقم منہانہیں کرسکتا اور اسکا خمس نہیں دے گالیکن اگر سال کے شروع میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لے اور سال ختم ہونے سے پہلے منافع کمائے تواپنے قرضے کی رقم اس منافع میں سے منہاکرسکتاہے اور اسی طرح پہلی صورت میں وہ اس قرض کواس سال کے منافع سے اداکرسکتاہے اور منافع کی اس مقدارسے خمس کاکوئی تعلق نہیں ۔

مسئلہ (۱۸۰۴)اگرکوئی شخص مال بڑھانے کی غرض سے یاایسی املاک خریدنے کے لئے جس کی اسے ضرورت نہ ہوقرض لے تو اگروہ اس سال کے منافع سے خمس ادا کئے بغیر قرض ادا کرے تو ضروری ہے کہ سال مکمل ہونے پر اس مال کا خمس ادا کرے سوائے اس مال کے جو بطورقرض لیاہویاجوچیزاس قرض سے خریدی ہواگروہ دوران سال تلف ہو جائے تواس کا خمس نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۰۵)انسان ہراس چیزکاجس پرخمس واجب ہوچکاہواسی چیزکی شکل میں خمس دے سکتاہے اور اگرچاہے توجتناخمس اس پرواجب ہواس کی قیمت کے برابر رقم بھی دے سکتاہے لیکن اگرکسی دوسری جنس کی صورت میں جس پرخمس واجب نہ ہودینا چاہے تو محل اشکال ہے بجزاس کے کہ ایساکرناحاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ (۱۸۰۶)جس شخص کے مال پرخمس واجب الاداہواورسال گزرگیاہولیکن اس نے خمس نہ دیاہو وہ اس مال میں تصرف نہیں کرسکتا ۔

مسئلہ (۱۸۰۷)جس شخص کوخمس اداکرناہووہ یہ نہیں کرسکتاکہ اس خمس کواپنے ذمے لے یعنی اپنے آپ کوخمس کے مستحقین کامقروض تصورکرے اورسارامال استعمال کرتا رہے اوراگر استعمال کرے اور وہ مال تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۸۰۸)جس شخص کوخمس اداکرناہواگروہ حاکم شرع سے مفاہمت(دست گردان) کرکے خمس کو اپنے ذمے لے لے توسارا مال استعمال کرسکتاہے اورمفاہمت کے بعداس مال سے جو منافع اسے حاصل ہووہ اس کااپنامال ہے اور پھر دھیرے دھیرے اپنے قرض کو لاپروائی کے بغیر ادا کرتا رہے۔

مسئلہ (۱۸۰۹)جو شخص کاروبار میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک ہواگروہ اپنے منافع پرخمس دے دے اوراس کا حصے دارنہ دے اورآئندہ سال دوحصے داراس مال کوجس کاخمس اس نے نہیں دیاساجھے میں سرمائے کے طورپرپیش کرے تووہ شخص (جس نے خمس اداکردیاہو) (اگراس فرضیہ کے ساتھ کہ وہ شیعہ اثناعشری مسلمان ہو)اس مال کو استعمال میں لاسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۱۰)اگرنابالغ بچے کے پاس کوئی سرمایہ ہواوراس سے منافع حاصل ہواگرچہ وہ ہدیہ کےذریعہ ہی رہا ہو اگر دوران سال اس کے اخراجات میں شامل نہ ہوا ہوتو اس کا خمس دیناہوگااوراس بچہ کے ولی پرواجب ہے کہ اس کاخمس دے اوراگر ولی خمس نہ دے توبالغ ہونے کے بعدواجب ہے کہ وہ خوداس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۸۱۱)جس شخص کوکسی دوسرے شخص سے کوئی مال ملے اوراسے شک ہو کہ (مال دینے والے) دوسرے شخص نے اس کا خمس دیاہے یانہیں تووہ (مال حاصل کرنے والا شخص) اس مال میں تصرف کرسکتاہے۔بلکہ اگریقین بھی ہوکہ اس دوسرے شخص نے خمس نہیں دیااگر وہ خمس نہ دینے والوں میں ہو اور مال لینے والا شیعہ اثناعشری مسلمان ہوتواس مال میں تصرف کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۱۲)اگرکوئی شخص کاروبار کے منافع سے سال کے دوران ایسی جائداد خریدے جواس کی سال بھرکی ضروریات اوراخراجات میں شمارنہ ہوتواس پرواجب ہے کہ سال کے خاتمے پراس کاخمس دے اور اگرخمس نہ دے اوراس جائداد کی قیمت بڑھ جائے تولازم ہے کہ اس کی موجودہ قیمت پرخمس دے ۔

مسئلہ (۱۸۱۳)اگر کسی چیز کو خریدے اور اس کی قیمت کو ایسی رقم سے ادا کرے جس پر سال گزر گیا ہو اور خمس نہ دیا ہو اور اس مال کی قیمت بھی بڑھ گئی ہو اور اس لئے نہ خریدا ہو کہ قیمت بڑھ جائے تو اسے بیچ دے مثلاًکھیتی باڑی کے لئے زمین خریدی ہوتوضروری ہے کہ قیمت خریدپرخمس دے اورمثلاً اگربیچنے والے کو وہ رقم دی ہوجس پرخمس نہ دیا ہو اور اس سے کہاہوکہ میں یہ جائداد اس رقم سے خریدتاہوں توضروری ہے کہ اس جائداد کی موجودہ قیمت پرخمس دے۔

مسئلہ (۱۸۱۴)جس شخص نے شروع سے (یعنی جب سے خمس کی ادائیگی اس پر واجب ہوئی) خمس نہ دیاہو یا چند سال تک اگراس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چیزخریدی ہو جس کی اسے ضرورت نہ ہواوراسے منافع کمائے ایک سال گزر گیا ہو تو ضروری ہے کہ اس کاخمس دے اوراگراس نے گھرکاسازوسامان اور ضرورت کی چیزیں اپنی حیثیت کے مطابق خریدی ہوں اورجانتاہوکہ اس نے یہ چیزیں اس سال کے دوران اس منافع سے خریدی ہیں جس سال میں اسے منافع ہواہے توان پرخمس دینالازم نہیں لیکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہوتواحتیاط واجب کی بناپرضروری ہے کہ حاکم شرع سے مفاہمت کرےیعنی اگر پچاس فی صد یہ احتمال ہو کہ اس پر خمس واجب ہوا ہے تو پچاس فی صد اس کا خمس دے۔

۲ -
معدنی کانیں

مسئلہ (۱۸۱۵)سونے، چاندی، سیسے، تانبے، لوہے، (جیسی دھاتوں کی کانیں ) نیز پیٹرولیم، کوئلے، فیروزے، عقیق، پھٹکری یانمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمرے میں آتی ہیں یعنی یہ امام عصر علیہ السلام کی ملکیت ہیں ۔ لیکن اگرکوئی شخص ان میں سے کوئی چیزنکالے جب کہ شرعاً کوئی حرج نہ ہو تووہ اسے اپنی ملکیت قراردے سکتا ہے اوراگر وہ چیز نصاب کے مطابق ہوتوضروری ہے کہ اس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۸۱۶)کان سے نکلی ہوئی چیزکانصاب (۱۵؍)مثقال مروجہ سکہ دار سوناہے یعنی اگرکان سے نکالی ہوئی کسی چیز کی قیمت (۱۵؍)مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پرجواخراجات آئے ہوں انہیں منہاکرکے اگر اس کی مقدار پندرہ مثقال مروجہ آنے کے سکہ تک پہونچے تو اس کے بعد کے اخراجات من جملہ اس کےتصفیہ وغیرہ کے خرچ منہا کرنے کے بعد جوباقی بچے اس کاخمس دے۔

مسئلہ (۱۸۱۷)جس شخص نے کان سے منافع کمایاہواورجوچیزکان سے نکالی ہواگر اس کی قیمت( ۱۵؍)مثقال سکہ دار سونے تک نہ پہنچے تواس پرخمس تب واجب ہوگاجب صرف یہ منافع یااس کے دوسرے منافع اس منافع کوملاکراس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوجائیں ۔

مسئلہ (۱۸۱۸)جپسم،چونا،چکنی مٹی اورسرخ مٹی پر(احتیاط لازم کی بناپر)معدنی چیزوں کے حکم کااطلاق ہوتاہے لہٰذااگریہ چیزیں حدنصاب تک پہنچ جائیں توسال بھر کے اخراجات نکالنے سے پہلے ان کاخمس دیناضروری ہے۔

مسئلہ (۱۸۱۹)جوشخص کان سے کوئی چیزنکالے توضروری ہے کہ اس کاخمس دے خواہ وہ کان زمین کے اوپرہو یازیرزمین اور خواہ ایسی زمین میں ہوجوکسی کی ملکیت ہویا ایسی زمین میں ہو جس کا کوئی مالک نہ ہو۔

مسئلہ (۱۸۲۰)اگرکسی شخص کویہ معلوم نہ ہوکہ جوچیزاس نے کان سے نکالی ہے اس کی قیمت (۱۵؍)مثقال سکہ دارسونے کے برابرہے یانہیں تواحتیاط لازم یہ ہے کہ اگرممکن ہو تووزن کرکے یاکسی اورطریقے سے اس کی قیمت معلوم کرےلیکن اگر یہ ممکن نہ ہوتو اس پر خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۲۱)اگرکئی افرادمل کرکان سے کوئی چیزنکالیں اوراس کی قیمت( ۱۵؍) مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے لیکن ان میں سے ہرایک کاحصہ اس مقدارسے کم ہو تو اس پر خمس نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۲۲)اگرکوئی شخص اس معدنی چیزکوجوزیرزمین دوسرے کی ملکیت میں ہو اس کی اجازت کے بغیر اس کی زمین کھودکرنکالے تومشہورقول یہ ہے کہ ’’جوچیزدوسرے کی زمین سے نکالی جائے وہ اس ملکیت کے مالک کی ہے‘‘ لیکن یہ بات اشکال سے خالی نہیں اور احتیاط یہ ہے کہ باہم معاملہ طے کریں اوراگرآپس میں سمجھوتہ نہ ہوسکے توحاکم شرع کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ اس تنازع کافیصلہ کرے۔

۳ -
دفینہ

مسئلہ (۱۸۲۳)دفینہ منتقل ہونے والا وہ مال ہے جو چھپا ہوا ہے اور لوگوں کی دسترسی سے دور ہے جوزمین ،درخت ،پہاڑ یادیوارمیں گڑاہواہو اور ایسی جگہوں پر عام طورسے نہ پایاجاتا ہو۔

مسئلہ (۱۸۲۴)اگرانسان کوکسی ایسی زمین سے دفینہ ملے جوکسی کی ملکیت نہ ہو یا مردہ ہے اور وہ خود ا س زمین کو آباد کرے اور اس میں کوئی دفینہ مل جائے تو وہ اسے اپنے قبضے میں لے سکتاہے لیکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

مسئلہ (۱۸۲۵)دفینے کانصاب( ۱۰۵؍)مثقال سکہ دار چاندی اور( ۱۵؍)مثقال سکہ دار سوناہے یعنی جوچیزدفینے سے ملے اگراس کی قیمت ان دونوں میں سے کسی ایک کے بھی برابرہوتواس کاخمس دیناواجب ہے۔

مسئلہ (۱۸۲۶)اگر کسی شخص کو ایسی زمین سے دفینہ ملے جو اس نے کسی سے خریدی ہو یا کرایہ اور اس کے جیسی صورت حال میں حاصل کیا ہو کہ شرعی طور پر مسلمان یا ذمی سے متعلق نہ ہویا اگرہو تو اتنے قدیم زمانے سے متعلق ہو کہ یہ قدیم زمانہ اس زمین کے وارث کےنہ ہونے کے یقین کا سبب ہوتو وہ اس دفینہ کو لے سکتاہے لیکن ضروری ہےکہ اس کا خمس دے اور اگر اس بات کا عاقلانہ گمان ہو کہ اس زمین کے پہلے والے مالک کا مال ہے جب کہ زمین اور اسی طرح دفینہ یا وہ جگہ ضمناً زمین میں شامل ہونے کی بناء پر اس کا حق ہوضروری ہےکہ اس کی خبر دے اب اگر وہ دعوےدار ہوتو ضروری ہےکہ اس کے حوالے کردے لیکن وہ دعوےدار نہ ہو تو جو اس سےپہلے زمین کامالک رہا ہو اور وہ زمین پر اس کا حق رہا ہو تو اسے خبر دے اور اس ترتیب سے ان تمام افراد کو خبردے جو اس سے پہلے زمین کا مالک و حق دار رہے ہوں لیکن اگر ان میں سےکوئی دعوےدار نہ ہو اور یہ نہ جانتا ہو کہ مسلمان یا ذمی سےبہت پہلے متعلق رہی ہو تو وہ اس مال کو خود لے سکتا ہے لیکن ضروری ہےکہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۸۲۷)اگرکسی شخص کو ایک ہی وقت متعدد جگہوں سے دفینہ ملے اور اس مال کی مجموعی قیمت (۱۰۵؍)مثقال چاندی یا(۱۵؍)مثقال سونے کے برابرہوتوضروری ہے کہ اس مال کاخمس دے لیکن اگر مختلف اوقات میں دفینے ملیں اب اگر بہت زیادہ فاصلہ نہ رہا ہو تو سب کو ملا کر قیمت کا حساب کرے لیکن اگر زیادہ فاصلہ رہا تو ہر ایک کی الگ الگ قیمت کا حساب کرے۔

مسئلہ (۱۸۲۸)جب دواشخاص کوایسادفینہ ملے جس کی قیمت (۱۰۵؍)مثقال چاندی یا (۱۵؍)مثقال سونے تک پہنچتی ہولیکن ان میں سے ہرایک کاحصہ اتنانہ بنتاہوتواس پرخمس ادا کرناضروری نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۲۹)اگرکوئی شخص جانورخریدے اوراس کے پیٹ سے اسے کوئی مال ملے تواگراسے احتمال ہوکہ یہ مال بیچنے والے یاپہلے مالک کاہے اوروہ جانورپراور جوکچھ اس کے پیٹ سے برآمدہواہے اس پرحق رکھتاہے توضروری ہے کہ اسے اطلاع دےاگر اس حیوان کا مالک اس مال کو نہ پہچانے تو اگر اس مال کی مقدار دفینہ کے نصاب کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے بلکہ( احتیاط واجب کی بناء پر) اگرنصاب سے کم بھی ہو تو اس کا خمس دینا ضروری ہے اور اس کے بعد باقی بچ جانے والا مال اس کی ملکیت ہوگااور یہ حکم مچھلی اوراس کے مانند دوسرے ایسے جانداروں کے لئے بھی ہے جن کی کوئی شخص کسی مخصوص جگہ میں (افزائش) و پرورش کرے اوران کی غذاکاانتظام کرے اور اگرسمندر یادریاسے اسے پکڑے توکسی کو اس کی اطلاع دینالازم نہیں ۔

۴
۔وہ حلال مال جوحرام مال میں مخلوط ہوجائے

مسئلہ (۱۸۳۰)اگرحلال مال حرام مال کے ساتھ اس طرح مل جائے کہ انسان انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اورحرام مال کے مالک اوراس مال کی مقدار کابھی علم نہ ہو اور یہ بھی علم نہ ہوکہ حرام مال کی مقدارخمس سے کم ہے یازیادہ توتمام مال کاخمس دینے سے حلال ہوجائے گا اور( احتیاط واجب کی بناء پر) خمس اور ردّ مظالم کا مستحق ہوتو ضروری ہے کہ اس کو دے دے۔

مسئلہ (۱۸۳۱)اگرحلال مال حرام مال سے مل جائے اورانسان حرام کی مقدار( خواہ وہ خمس سے کم ہویازیادہ )جانتاہولیکن اس کے مالک کونہ جانتاہوتوضروری ہے کہ اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے نیت کرکے صدقہ کردے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔

مسئلہ (۱۸۳۲)اگرحلال مال حرام مال سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدار کا علم نہ ہولیکن اس مال کے مالک کوپہچانتاہواوردونوں ایک دوسرے کوراضی نہ کرسکیں تو ضروری ہے کہ جتنی مقدارکے بارے میں یقین ہوکہ دوسرے کامال ہے وہ اسے دے دے۔بلکہ اگردو مال(حلال وحرام)(ایک دوسرے کے ساتھ اس کی اپنی غلطی سے مخلوط ہوئے ہوں ) تو(احتیاط کی بناپر)جس مال کے بارے میں اسے احتمال ہوکہ یہ دوسرے کاہے اسے اس مال سے زیادہ دیناضروری ہے۔

مسئلہ (۱۸۳۳)اگرکوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کاخمس دے دے اوربعد میں اسے پتا چلے کہ حرام کی مقدارخمس سے زیادہ تھی توضروری ہے کہ جتنی مقدارکے بارے میں علم ہوکہ خمس سے زیادہ تھی اسے اس کے مالک کی طرف سے صدقہ کردے۔

مسئلہ (۱۸۳۴)اگرکوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کاخمس دے یاایسامال جس کے مالک کونہ پہچانتاہو مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کردے اوربعدمیں اس کا مالک مل جائے تواگروہ راضی نہ ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)اس کے مال کے برابراسے دینا ضروری ہے۔

مسئلہ (۱۸۳۵)اگرحلال مال حرام مال سے مل جائے اورحرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتاہوکہ اس کامالک چندلوگوں میں سے ہی کوئی ایک ہے لیکن یہ نہ جانتاہوکہ وہ کون ہے توان سب کواطلاع دے چنانچہ ان میں سے کوئی ایک کہے کہ یہ میرامال ہے اور دوسرے کہیں کہ ہمارامال نہیں یا اس کی تصدیق کریں تواسی پہلے شخص کووہ مال دے دے اوراگردویادوسے زیادہ آدمی کہیں کہ یہ ہمارامال ہے اور مصالحت یا اسی طرح کسی طریقے سے وہ معاملہ حل نہ ہوتوضروری ہے کہ تنازع کے حل کے لئے حاکم شرع سے رجوع کریں اوراگروہ سب لاعلمی کااظہارکریں اورباہم مصالحت بھی نہ کریں تو ظاہر یہ ہے کہ اس مال کے مالک کاتعین قرعہ اندازی کے ذریعے ہوگااوراحتیاط یہ ہے کہ حاکم شرع یااس کاوکیل قرعہ اندازی کی نگرانی کرے۔

۵ -
غواصی سے حاصل کئے ہوئے موتی

مسئلہ (۱۸۳۶)اگرغوطہ خوری کے ذریعے( یعنی سمندرمیں غوطہ لگا کر ) لُو ٔلُو ٔ،مرجان یا دوسرے موتی نکالے جائیں توخواہ وہ ایسی چیزوں میں سے ہوں جواگتی ہیں یا معدنیات میں سے ہوں اگراس کی قیمت (۱۸؍)چنے سونے کے برابرہوجائے توضروری ہے کہ اس کا خمس دیاجائے خواہ انہیں ایک دفعہ میں سمندرسے نکالاگیا ہویاایک سے زیادہ دفعہ میں بشرطیکہ پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ غوطہ لگانے میں زیادہ فاصلہ نہ ہومثلاً یہ کہ دوموسموں میں غواصی کی ہو۔ بصورت دیگرہرایک دفعہ میں ( ۱۸؍)چنے سونے کی قیمت کے برابرنہ ہوتو اس کا خمس دیناواجب نہیں ہے اور اسی طرح جب غواصی میں شریک تمام غوطہ خوروں میں سے ہرایک کاحصہ( ۱۸؍)چنے سونے کی قیمت کے برابر نہ ہوتوان پراس کاخمس دیناواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۳۷)اگرسمندرمیں غوطہ لگائے بغیردوسرے ذرائع سے موتی نکالے جائیں تو(احتیاط کی بناپر)ان پرخمس واجب ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص سمندرکے پانی کی سطح یا سمندرکے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کاخمس اسے اس صورت میں دینا ضروری ہے جب جوموتی اسے دستیاب ہوئے ہوں وہ تنہا یااس کے کاروبارکے دوسرے منافع سے مل کراس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ (۱۸۳۸)مچھلیوں اوران دوسرے (آبی)جانوروں کاخمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائے بغیرحاصل کرتاہے اس صورت میں واجب ہوتاہے جب ان چیزوں سے حاصل کردہ منافع تنہایاکاروبار کے دوسرے منافع سے مل کراس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ (۱۸۳۹)اگرانسان کوئی چیز نکالنے کاارادہ کئے بغیر سمندرمیں غوطہ لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے ہاتھ لگ جائے اوروہ اسے اپنی ملکیت میں لینے کاارادہ کرے تواس کاخمس دیناضروری ہے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ ہرحال میں اس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۸۴۰)اگرانسان سمندرمیں غوطہ لگائے اورکوئی جانورنکال لائے اوراس کے پیٹ میں سے اسے کوئی موتی ملے تواگروہ جانورسیپی کے مانندہوجس کے پیٹ میں عموماً موتی ہوتے ہیں اوروہ نصاب تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر وہ کوئی ایساجانورہوجس نے اتفاقاً موتی نگل لیاہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وہ حد نصاب تک نہ پہنچے تب بھی اس کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۸۴۱)اگرکوئی شخص بڑے دریاؤں مثلاً دجلہ اورفرات میں غوطہ لگائے اور موتی نکال لائے تو(جوموتی نکالے) ان کا خمس دے۔

مسئلہ (۱۸۴۲)اگرکوئی شخص پانی میں غوطہ لگائے اورکچھ عنبرنکال لائے اوراس کی قیمت (۱۸؍)چنے سونے یااس سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ اس کاخمس دے بلکہ اگرپانی کی سطح یاسمندرکے کنارے سے بھی حاصل کرے تواس کابھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۸۴۳)جس شخص کاپیشہ غوطہ خوری یاکان کنی ہواگروہ ان کاخمس اداکردے اورپھراس کے سال بھرکے اخراجات سے کچھ بچا رہے تواس کے لئے یہ لازم نہیں کہ دوبارہ اس کاخمس اداکرے۔

مسئلہ (۱۸۴۴)اگربچہ کوئی معدنی چیزنکالے یااسے کوئی دفینہ مل جائے یاسمندر میں غوطہ لگاکرموتی نکال لائے توبچے کاولی اس کاخمس دے اوراگرولی خمس ادانہ کرے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعدخود خمس اداکرے اوراسی طرح اگراس کے پاس حرام مال میں حلال مال ملاہواہوتوضروری ہے کہ اس کاولی مخلوط مال کےبارے میں بیان کئے گئے احکام کے مطابق عمل کرے۔

۶ -
مال غنیمت

مسئلہ (۱۸۴۵)اگرمسلمان امام علیہ السلام کے حکم سے کفارسے جنگ کریں اورجو چیزیں جنگ میں ان کے ہاتھ لگیں انہیں ’’غنیمت‘‘ کہاجاتاہے اورجومال، خاص امام علیہ السلام کاحق ہے اسے علیٰحدہ کرنے کے بعد باقیماندہ پرخمس اداکیاجائے۔مال غنیمت پرخمس ثابت ہونے میں اشیائے منقولہ اورغیر منقولہ میں کوئی فرق نہیں ۔ہاں جن زمینوں کاتعلق ’’انفال‘‘ سے نہیں ہے وہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں اگرچہ جنگ امام علیہ السلام کی اجازت سے نہ ہو۔

مسئلہ (۱۸۴۶)اگرمسلمان کافروں سے امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل ہوتوجوغنیمت حاصل ہووہ امام علیہ السلام کی ملکیت ہے اورجنگ کرنے والوں کااس میں کوئی حق نہیں ۔

مسئلہ (۱۸۴۷)جوکچھ کافروں کے ہاتھ میں ہے اگراس کامالک محترم المال( یعنی مسلمان یاذمی کافر یا جس سے معاہدہ ہوا ہو)تو اس پرغنیمت کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

مسئلہ (۱۸۴۸)کافرحربی کامال چرانااوراس جیساکوئی کام کرنااگرخیانت اور نقض امن میں شمار ہوتوحرام اور اس طرح کی جوچیزیں ان سے حاصل کی جائیں (احتیاط کی بنا پر) ضروری ہے کہ انہیں لوٹادی جائیں ۔

مسئلہ (۱۸۴۹)مشہوریہ ہے کہ ناصبی کامال مومن اپنے لئے لے سکتاہے البتہ اس کا خمس دے لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے۔

۷
۔ وہ زمین جوذمی کافرکسی مسلمان سے خریدے

مسئلہ (۱۸۵۰)اگرذمی کافر مسلمان سے زمین خریدے تومشہورقول کی بناپر اس کا خمس اسی زمین سے یااپنے کسی دوسرے مال سے دے لیکن( خمس کے عام قواعدکے مطابق) اس صورت میں خمس کے واجب ہونے میں اشکال ہے۔

خمس کامصرف

مسئلہ (۱۸۵۱)ضروری ہے کہ خمس دوحصوں میں تقسیم کیاجائے:اس کاایک حصہ سادات کاحق ہے اور ضروری ہے کہ کسی فقیرسیدیایتیم سیدیاایسے سیدکودیاجائے جوسفر میں ناچارہوگیاہواوردوسراحصہ امام علیہ السلام کاہے جوضروری ہے کہ موجود زمانے میں جامع الشرائط مجتہدکودیاجائے یاایسے کاموں پرجس کی وہ مجتہداجازت دے خرچ کیاجائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ مرجع اعلم عمومی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔

مسئلہ (۱۸۵۲)جس یتیم سیدکوخمس دیاجائے ضروری ہے کہ وہ فقیربھی ہولیکن جو سید سفر میں ناچارہو جائے وہ خواہ اپنے وطن میں فقیرنہ بھی ہواسے خمس دیاجاسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۵۳)جوسیدسفرمیں ناچارہوگیاہواگراس کاسفرگناہ کاسفرہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیاجائے۔

مسئلہ (۱۸۵۴)جوسیدعادل نہ ہواسے خمس دیاجاسکتاہے لیکن جوسیداثناعشری نہ ہو ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیاجائے۔

مسئلہ (۱۸۵۵) وہ سید جو خمس کے مال کو گناہ میں خرچ کرتا ہے اس کو خمس نہیں دیا جاسکتا بلکہ اگر خمس دینا اس کی معصیت میں مدد کہلائے تو احتیاط واجب یہ ہےکہ اسے خمس نہ دیا جائے اگرچہ وہ گناہ میں خرچ نہ بھی کرے اور اسی طرح احتیاط واجب یہ ہےکہ اس سیدکوبھی خمس نہ دیاجائے جو شراب پیتاہویانمازنہ پڑھتاہویاآشکارا گناہ کرتاہو۔

مسئلہ (۱۸۵۶)جوشخص کہے کہ میں سیدہوں اسے اس وقت تک خمس نہ دیاجائے جب تک دوعادل اشخاص اس کے سیدہونے کی تصدیق نہ کردیں یالوگوں میں اس کا سید ہونااتنامشہورہوکہ انسان کویقین اوراطمینان ہوجائے کہ وہ سیدہے۔

مسئلہ (۱۸۵۷)کوئی شخص اپنے شہرمیں سیدمشہورہواوراس کے سیدنہ ہونے کے بارے میں جوباتیں کی جاتی ہوں انسان کوان پریقین یااطمینان نہ ہوتواسے خمس دیا جاسکتا ہے۔

مسئلہ (۱۸۵۸)اگرکسی شخص کی بیوی سیدانی ہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ شوہر اسے اس مقصدکے لئے خمس نہ دے کہ وہ اسے اپنے ذاتی استعمال میں لے آئے لیکن اگردوسرے لوگوں کی کفالت اس عورت پرواجب ہو اوروہ ان اخراجات کی ادائیگی سے قاصرہوتوانسان کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیوی کو خمس دے تاکہ وہ زیر کفالت لوگوں پرخرچ کرے اور اس عورت کواس غرض سے خمس دینے کے بارے میں بھی یہی حکم ہےجب کہ وہ (یہ رقم) اپنے غیرواجب اخراجات پرصرف کرے۔

مسئلہ (۱۸۵۹)اگرانسان پرکسی سیدکے یاایسی سیدانی کے اخراجات واجب ہوں جو اس کی بیوی نہ ہوتو (احتیاط واجب کی بناپر)وہ اس سیدیاسیدانی کے خوراک اور پوشاک کے اخراجات اورباقی واجب اخراجات اپنے خمس سے ادانہیں کرسکتا۔ہاں اگروہ اس سید یا سیدانی کوخمس کی کچھ رقم اس مقصد سے دے کہ وہ واجب اخراجات کے علاوہ اسے دوسری ضروریات پرخرچ کرے توکوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۱۸۶۰)اگرکسی فقیرسیدکے اخراجات کسی دوسرے شخص پرواجب ہوں اور وہ شخص اس سیدکے اخراجات برداشت نہ کرسکتاہویااستطاعت رکھتاہولیکن نہ دیتا ہو تو اس کو خمس دیاجاسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۶۱)احتیاط واجب یہ ہے کہ کسی ایک فقیرسیدکواس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیاجائے۔

مسئلہ (۱۸۶۲)اگرکسی شخص کے اپنے شہرمیں خمس کامستحق نہ ہو تو وہ خمس دوسرے شہرلے جاکرمستحق کوپہنچاسکتاہے بلکہ اگر خود اس کے شہر میں مستحق ہو تب بھی دوسرے شہر میں لے جاسکتاہے۔لیکن اس طرح ہو کہ خمس پہچانے میں سستی شمار نہ ہو اوراس صورت میں اگر خمس ضائع ہوجائے تو اگرچہ اس نے اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ برتی ہووہ اس کاذمہ دارہےاور خمس کے مال کو لے جانے کےخرچ کو خمس سے نہیں لے سکتا۔

مسئلہ (۱۸۶۳)اگر کوئی شخص حاکم شرع کی وکالت سے یا اس کے وکیل سے خمس وصولی پر مامور ہوتواس کا ذمہ بری ہوجائے گا اور اگر ان میں سے کسی ایک کی اجازت سے دوسرے شہر میں منتقل کرے اوربغیر کوتاہی کئے تلف ہوجائے تو ضامن نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۶۴)یہ جائزنہیں کہ کسی چیزکی قیمت اس کی اصل قیمت سے زیادہ لگا کر اسے بطورخمس دیاجائے اور جیساکہ مسئلہ ( ۱۸۰۵) میں بتایاگیاہے کہ کسی دوسری جنس کی شکل میں خمس اداکرنا سوائے روپیہ کے مطلقاً محل اشکال ہے مگر یہ کہ حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ (۱۸۶۵)جس شخص کوخمس کے مستحق شخص سے کچھ لیناہواورچاہتاہوکہ اپنا قرضہ خمس کی رقم سے منہاکرلے تو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ یاتوحاکم شرع سے اجازت لے یاخمس اس مستحق کو دے دے اوربعدمیں مستحق شخص اسے وہ مال قرضے کی ادائیگی کے طورپرلوٹادے اوروہ یہ بھی کرسکتاہے کہ خمس کے مستحق شخص کی اجازت سے اس کاوکیل بن کرخوداس کی طرف سے خمس لے لے اوراس سے اپناقرض چکالے۔

مسئلہ (۱۸۶۶)مالک، خمس کے مستحق شخص سے یہ شرط نہیں کرسکتاکہ وہ خمس لینے کے بعد اسے واپس لوٹا دے۔

امربمعروف اور نہی ازمنکر کے احکام

امربمعروف اور نہی ازمنکر دینی واجبات میں ایک اہم ترین واجب ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتا ہے:

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران:۱۰۴) ۔

ضروری ہےکہ (امت اسلامی میں )تم میں سے کچھ لوگ ہوں جونیکی کی طرف دعوت دینے والے ہوں اور امربمعروف اور نہی ازمنکر انجام دیں وہی لوگ کامیاب ہیں ۔

پیغمبر اکرمؐ سے روایت منقول ہے کہ فرمایا:

’’ لا تزال امّتی بخیر ما امروا بالمعروف و نہوا عن المنکر وتعاونوا علی البر فاذا لم یفعلو ا ذلک نُزعت عنہم البرکات وسلّط بعضھم علی بعض ولم یکن لھم ناصر فی الارض ولا فی السماء ‘‘۔

میری امت اس وقت تک نیکی اور اچھائی پر رہے گی جب تک امربمعروف اور نہی ازمنکر انجام دیتی رہے اورایک دوسرے کےساتھ احسان اور نیکی کا سلوک انجام دے اوراگر ایسانہیں کرےگی تو ان سے برکت اٹھالی جائے گی اور ایک کو دوسرے پر (ظلم کی بنیاد پر) مسلط کردیا جائے گا اور زمین و آسمان میں کوئی ان کا ناصر و مددگار نہیں ہوگا۔

اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ:

’’ لاتترکوا الا امر بالمعروف والنہی عن المنکر فیولّی علیکم شرارکم ثم تدعون فلایستجاب لکم‘‘۔

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کروورنہ بدترین افراد تم پر حکومت کریں گے اور تمہاری دعائیں بھی مستجاب نہیں ہوں گی۔

مسئلہ (۱۸۶۷)امربمعروف و نہی عن المنکر اس صورت میں واجب ہوتا ہے کہ نیکی کاانجام دینا واجب اور برائی کا انجام دینا حرام ہو اور اس صورت میں امربمعروف ونہی عن المنکر واجب کفائی ہے اور اگر کچھ لوگ اس وظیفہ پر عمل کریں تو بقیہ لوگوں سے ساقط ہوجاتا ہے لیکن یہ سب پر لازم ہے کہ کسی حرام کام یا کسی واجب کو ترک کرتے دیکھیں تو بے توجہی نہ برتیں اور اپنی نفرت یا ناپسندیدگی کو قول و فعل کے ذریعہ ظاہر کریں ۔یہ مقدار واجب عینی ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے اس طرح واردہوا ہے: ’’امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان نلقی اھل المعاصی بوجوہ مکفہرّہ (رسول اکرمؐ نے ہم سب کو حکم دیا کہ گناہگاروں سے ناراض چہرے کے ساتھ ملاقات کریں )۔

اس صورت میں جب کہ معروف کا انجام دینا مستحب ہو(نا کہ واجب) اور منکر کا انجام دینامکروہ ہو (نا کہ حرام) تو امربمعروف اور نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر مخالفت کرنے والے کی حیثیت و شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا جائے تاکہ اسے اذیت یااس کی توہین نہ ہو اسی طرح بہت زیادہ سخت گیری اور تندی بھی اختیار نہ کی جائے جس سے وہ دین اور مذہبی امور سے بیزار ہوجائے۔

مسئلہ (۱۸۶۸)امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا واجب ہونا درجہ ذیل شرائط کی بنیاد پر ہونا ضروری ہے :

(۱) معروف اور منکر کی پہچان اگرچہ اجمالی طورپر ہی کیوں نہ ہو، اس بناء پر جو معروف اور منکر کو نہ پہچانتا ہو اور ان دونوں کو آپس میں تشخیص بھی نہ دیتا ہو اس کے لئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے ہاں کبھی کبھی امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا انجام دینا معروف اور منکر کے سمجھنے اور پہچاننے کےلئے واجب ہوجاتا ہے۔

(۲) مخالفت کرنے والے شخص پر موثر ہونے کا امکان ہو،اس بنا پر اگر کوئی یہ جانتا ہوکہ اس کی بات سامنے والے پر اثرانداز نہیں ہوگی تو فقہاء کے درمیان یہ مشہور ہےکہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر اس پر واجب نہیں ۔ لیکن احتیاط واجب یہ ہےکہ غلط کام کرنے والے کے غلط کاموں سے اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کااظہار جس طرح بھی ممکن ہو کرے اگر چہ یہ جانتا ہوکہ سامنے والے پراس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

(۳)غلط کام کرنے والے انسان کا غلط اور ناپسندیدہ کام مسلسل انجام دینے کا ارادہ ہو اس بناء پر غلط کام کرنے والا انسان اگر دوبارہ انجام دینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو لیکن دوبارہ انجام دے لے تو امربالمعروف و نہی عن المنکر واجب نہیں ہے ۔

(۴) غلطی کرنے والا شخص اپنے غلط کام انجام دینے میں مجبور نہ ہو اس نظریہ کے ساتھ جو غلط کام انجام دیا ہے حرام نہ تھا بلکہ مباح تھا یا جس نیک کام کو ترک کیا ہو وہ اس کےلئے واجب نہیں تھا۔لیکن اگر براکام ان کاموں میں سے ہو جس کے انجام دینے سے خدا اور رسولؐ ہرگز راضی نہیں ہیں ( جیسے کسی نفس محترم کا قتل کرنا)، تو اس کا روکنا واجب ہے اگرچہ انجام دینے والا معذور ہے یہاں تک کہ اگر وہ مکلف بھی نہ ہو۔

(۵)امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے شخص کےلئے (قابل توجہ مقدار میں ) جان یا مال یا عزت کا خطرہ نہ ہو اور ناقابل تحمل زحمت و مشقت نہ ہو مگر یہ کہ خدا و رسولؐ کے نزدیک معروف کام اتنا اچھا ہو اور منکر اتنا برا ہو کہ جس کی راہ میں اتنی زحمت و مشقت برداشت کیا جانا ضروری ہو۔

اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والےکےلئے کوئی نقصان نہ ہو لیکن مسلمانوں میں سے کسی دوسرے کے لئے جان یاآبرو یا مال کاقابل توجہ نقصان ہورہا ہو تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہوگا کہ اس صورت میں نقصان کی اہمیت اور اس کام کا موازنہ کیا جائے جس بناء پر بسا اوقات نقصان کی صورت میں بھی امربالمعروف ونہی المنکر ساقط نہیں ہوگا۔

مسئلہ (۱۸۶۹)امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے کچھ مراتب و درجات ہیں :

(۱) قلبی واندرونی نفرت کا اظہار جیسے منہ پھیر لینا اور گناہگار سے بات نہ کرنا۔

(۲) زبان اور چہرہ سے وعظ و نصیحت کرنا۔

(۳) عملی اقدامات جیسے طمانچہ مارنا اورقید کرنا ۔

ضروری ہےکہ پہلے درجہ یا دوسرے درجہ سے شروع کرے اور پہلے اس درجہ کا انتخاب کرےکہ جس کی اذیت کم اور تاثیر زیادہ ہواور پھر اگر نتیجہ نہ نکلے تو بعد کے درجہ کی طرف جائے جو سخت اور مشکل ہے اور اس کے بعد والے درجہ کا انتخاب کرے۔

اگر قلبی وزبانی نفرت کا اظہار( پہلے اور دوسرے مرتبہ میں ) اثر انداز نہ ہو تب عملی اقدام کی نوبت آئے گی اور احتیاط واجب یہ ہےکہ تیسرے درجہ کے انتخاب میں ( جوعملی اقدامات کی شکل میں ہے) حاکم شرع کی اجازت لے اور لازم ہے کہ اس درجہ کا آغاز اس عمل سے کرےجس میں اذیت و تکلیف سب سےکم ہو او رپھر اگر نتیجہ نہ حاصل ہوتو زیادہ سخت اور شدید اقدام کرے لیکن ضروری ہےکہ اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ کسی عضو کے ٹوٹنے یا زخمی ہوجانے کا سبب قرار پائے۔

مسئلہ (۱۸۷۰)امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا واجب ہونا ہر شخص کے گھر والوں اور قریب رہنے والے افراد کی نسبت زیادہ شدید ہے اس بناء پر اگر گھر والوں یا قریبی افراد نے دین کے واجبات جیسے نماز، روزہ، خمس کے سلسلے میں بے توجہی و لاپروائی محسوس کی ہو اور محرمات جیسے غیبت، بہتان، کے انجام دینے میں دیدہ دلیری کا احساس کیا ہو تو ضروری ہےکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تینوں درجات کی رعایت کرتے ہوئے ان کو برائیوں سے روکے اور انہیں اچھے کام انجام دینے کی ترغیب دے لیکن والدین کے سلسلے میں احتیاط واجب یہ ہےکہ ملائمت اور نرمی کے ساتھ ان کی رہنمائی کرے اور کسی بھی موقع پر اس کے ساتھ تندروئی وبے رحمی اختیار نہ کرے۔

[7] اہل سنت کے نزدیک رائج مسئلہ جومیراث کے باب میں بتایا جاتا ہے اور شیعوں کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
زکوۃ کے احکام ← → روزے کے احکام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français