مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

چند فِقہی اصطلاحات ← → وقف کے احکام

وصیت کے احکام

مسئلہ (۲۷۱۱)’’وصیت‘‘ یہ ہے کہ انسان تاکید کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے فلاں فلاں کام کئے جائیں یایہ کہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیزفلاں شخص کی ملکیت ہوگی یااس کے مال میں سے کوئی چیزکسی شخص کی ملکیت میں دے دی جائے یاخیرات کی جائے یاامور خیریہ پرصرف کی جائے یااپنی اولاد کے لئے اورجولوگ اس کی کفالت میں ہوں ان کے لئے کسی کونگراں اورسرپرست مقرر کرے اورجس شخص کووصیت کی جائے اسے ’’وصی‘‘ کہتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۱۲)جوشخص بول نہ سکتاہواگروہ اشارے سے اپنامقصد سمجھادے تووہ ہر کام کے لئے وصیت کرسکتاہے بلکہ جوشخص بول سکتاہو اگروہ بھی اس طرح اشارے سے وصیت کرے کہ اس کامقصد سمجھ میں آجائے تو وصیت صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۷۱۳)اگرایسی تحریر مل جائے جس پرمرنے والے کے دستخط یامہر ثبت ہو تو اگراس تحریر سے اس کامقصد سمجھ میں آجائے اورپتاچل جائے کہ یہ چیز اس نے وصیت کی غرض سے لکھی ہے تواس کے مطابق عمل کرناچاہئے۔

مسئلہ (۲۷۱۴)جوشخص وصیت کرے ضروری ہے کہ بالغ اورعاقل ہو،سفیہ نہ ہو اور اپنے اختیارسے وصیت کرے،لہٰذا نابالغ بچے کاوصیت کرناصحیح نہیں ہے۔ مگریہ کہ بچہ دس سال کاہواور اس نے اپنے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی ہویاعام خیرات میں خرچ کرنے کی وصیت کی ہوتوان دونوں صورتوں میں اس کی وصیت صحیح ہے اور اگراپنے رشتہ داروں کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے وصیت کرے یاسات سال کا بچہ یہ وصیت کرے کہ :’’اس کے اموال میں سے تھوڑی سی چیزکسی شخص کے لئے ہے یاکسی شخص کو دے دی جائے‘‘تووصیت کانافذ ہونامحل اشکال ہے اوران دونوں صورتوں میں احتیاط کاخیال رکھاجائے اوراگر کوئی شخص سفیہ ہوتواس کی وصیت اس کے اموال میں نافذ نہیں ہے۔ لیکن اگراس کی وصیت اموال کے علاوہ دوسرے امورمیں ہو،مثلاً ان مخصوص کاموں کے متعلق ہوجوموت کے بعدمیت کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں تووہ وصیت نافذ ہے۔

مسئلہ (۲۷۱۵)جس شخص نے مثال کے طورپرعمداً اپنے آپ کوزخمی کرلیا ہویا زہر کھا لیا ہوجس کی وجہ سے اس کے مرنے کایقین یاگمان پیداہوجائے اگروہ وصیت کرے کہ اس کے مال کی کچھ مقدار کسی مخصوص مصرف میں لائی جائے اوراس کے بعدوہ مر جائے تو اس کی وصیت صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس کاکام راہ خدا میں جہاد کرنےکےعنوان سے ہولیکن مالی امور کےعلاوہ دوسرے امور میں وصیت صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۷۱۶)اگرکوئی شخص وصیت کرے کہ اس کی املاک میں سے کوئی چیز کسی دوسرے کامال ہوگی تواس صورت میں جب کہ وہ دوسرا شخص وصیت کوقبول کرلے خواہ اس کاقبول کرناوصیت کرنے والے کی زندگی میں یا مرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو اگر وہ چیز وصیت کرنے والے کے اموال کےتیسرے حصہ سے زیادہ نہ ہووہ چیز’’موصی‘‘ کی موت کے بعداس کی ملکیت ہوجائے گی۔

مسئلہ (۲۷۱۷)جب انسان اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ لے توضروری ہے کہ لوگوں کی امانتیں فوراً ان کے مالکوں کوواپس کردے یاانہیں اطلاع دے دے۔ اس تفصیل کے مطابق جومسئلہ ( ۲۳۶۱) میں بیان ہوچکی ہے اور اگروہ لوگوں کامقروض ہو اورقرضے کی ادائگی کاوقت نہیں آیا ہے یا وقت آگیا ہے لیکن قرض دینے والا مطالبہ نہیں کرتا یا مطالبہ کررہاہے لیکن وہ ادائگی پر قدرت نہیں رکھتا تو ضروری ہےکہ ایسا کام کرے جس سے اطمینان ہوجائے کہ اس کا قرض اس کی موت کے بعد قرض خواہ کو ادا کردیا جائے گا مثلاً اس صورت میں کہ اس کے قرض دوسروں کومعلوم نہیں ہیں تو وصیت کرے اور وصیت پر گواہ معین کرے لیکن اگر ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو اور وقت آگیا ہوقرض دینے والے نے مطالبہ کیا ہے تو ضروری ہےکہ فوراً ادا کرے اگرچہ موت کی نشانیوں کو نہ دیکھے۔

مسئلہ (۲۷۱۸)جوشخص اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہاہواگرزکوٰۃ، خمس اور ردّمظالم اس کے ذمے ہوں اوروہ انہیں اس وقت ادانہ کرسکتاہو،لیکن اس کے پاس مال ہو یااس بات کااحتمال ہوکہ کوئی دوسرا شخص یہ چیزیں اداکردے گاتوضروری ہے کہ وصیت کرے مثلاً قابل اعتماد شخص کو وصیت کردے اوراگراس پرحج واجب ہوتواس کابھی یہی حکم ہے۔لیکن اگروہ شخص اس وقت اپنے شرعی واجبات اداکرسکتاہوتوضروری ہے کہ فوراً اداکرے اگرچہ وہ اپنے آپ میں موت کی نشانیاں نہ دیکھے۔

مسئلہ (۲۷۱۹)جوشخص اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہاہواگراس کی نمازیں اورروزے قضاہوئے ہوں توضروری ہے کہ وصیت کرے کہ اس کے مال سے ان عبادات کی ادائیگی کے لئے کسی کواجیربنایاجائے بلکہ اگراس کے پاس مال نہ ہولیکن اس بات کااحتمال ہوکہ کوئی شخص بلامعاوضہ یہ عبادات بجالائے گاتب بھی اس پرواجب ہے کہ وصیت کرے،لیکن اگراس کااپناکوئی ہو(مثلاً بڑالڑکاہو)اوروہ شخص جانتاہو کہ اگراسے خبردی جائے تووہ اس کی قضا نمازیں اورروزے بجالائے گاتواسے خبردیناہی کافی ہے، وصیت کرنالازم نہیں ۔

مسئلہ (۲۷۲۰)جوشخص اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہاہواگراس کامال کسی کے پاس ہویاایسی جگہ چھپاہواہوجس کاورثاء کوعلم نہ ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ انہیں اطلاع دے اوریہ لازم نہیں کہ وہ اپنے نابالغ بچوں کے لئے نگراں اورسرپرست مقررکرے لیکن اس صورت میں جب کہ نگراں کانہ ہونامال کے تلف ہونے کاسبب ہویاخودبچوں کے لئے نقصان دہ ہو توضروری ہے کہ ان کے لئے ایک امین نگراں مقررکرے۔

مسئلہ (۲۷۲۱)وصی کاعاقل ہوناضروری ہے۔نیزجوامورموصی سے متعلق ہیں اور اسی طرح( احتیاط واجب کی بناپر)جواموردوسروں سے متعلق ہیں ضروری ہے کہ وصی ان کے بارے میں مطمئن ہواورضروری ہے کہ مسلمان کاوصی بھی(احتیاط واجب کی بناپر)مسلمان ہو اور اگر موصی فقط نابالغ بچے کے لئے اس مقصدسے وصیت کرے تاکہ وہ بچپن میں سرپرست سے اجازت لئے بغیر تصرف کرسکے تو(احتیاط واجب کی بناپر)درست نہیں ہے اور ضروری ہےکہ حاکم شرع کی اجازت سے تصرف انجام پائے لیکن اگرموصی کا مقصدیہ ہوکہ بالغ ہونے کے بعدیاسرپرست کی اجازت سے تصرف کرے توکوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۷۲۲)اگرکوئی شخص کئی لوگوں کواپناوصی معین کرے تواگراس نے اجازت دی ہوکہ ان میں سے ہرایک تنہاوصیت پرعمل کرسکتاہے تولازم نہیں کہ وہ وصیت انجام دینے میں ایک دوسرے سے اجازت لیں اوراگروصیت کرنے والے نے ایسی کوئی اجازت نہ دی ہو،توخواہ اس نے کہاہویانہ کہاہوکہ دونوں مل کر وصیت پرعمل کریں انہیں چاہئے کہ ایک دوسرے کی رائے کے مطابق وصیت پرعمل کریں اوراگروہ مل کروصیت پر عمل کرنے پرتیار نہ ہوں اورعمل نہ کرنے میں کوئی شرعی عذرنہ ہوتوحاکم شرع انہیں ایسا کرنے پرمجبور کرسکتاہے اوراگروہ حاکم شرع کاحکم نہ مانیں یایہ اختلاف ہر ایک کےلئے کسی شرعی رکاوٹ کی بناء پر ہوتووہ ان میں سے کسی ایک کی جگہ کوئی اوروصی مقرر کرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۷۲۳)اگرکوئی شخص اپنی وصیت سے منحرف ہوجائے،مثلاً پہلے وہ یہ کہے کہ: اس کے مال کاتیسراحصہ فلاں شخص کودیاجائے اوربعدمیں کہے کہ: اسے نہ دیاجائے تو وصیت کالعدم ہوجاتی ہے اوراگرکوئی شخص اپنی وصیت میں تبدیلی کردے،مثلاًپہلے ایک شخص کواپنے بچوں کانگراں مقررکرے اور بعدمیں اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کونگراں مقررکردے تواس کی پہلی وصیت کالعدم ہوجاتی ہے اورضروری ہے کہ اس کی دوسری وصیت پرعمل کیاجائے۔

مسئلہ (۲۷۲۴)اگرایک شخص کوئی ایساکام کرے جس سے پتاچلے کہ وہ اپنی وصیت سے منحرف ہوگیاہے، مثلاًجس مکان کے بارے میں وصیت کی ہوکہ وہ کسی کودیا جائے اسے بیچ دے یا (پہلی وصیت کوپیش نظررکھتے ہوئے) کسی دوسرے شخص کواسے بیچنے کے لئے وکیل مقررکرے تووصیت کالعدم ہوجاتی ہے۔

مسئلہ (۲۷۲۵)اگرکوئی شخص وصیت کرے کہ ایک معین چیز کسی شخص کودی جائے اور بعدمیں وصیت کرے کہ اس چیز کانصف حصہ کسی اور شخص کودیاجائے توضروری ہے اس چیز کے دو حصے کئے جائیں اور ان دونوں اشخاص میں سے ہرایک کوایک حصہ دیاجائے۔

مسئلہ (۲۷۲۶)اگرکوئی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وہ مر جائے اپنے مال کی کچھ مقدارکسی شخص کوبخش دے اوروصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد مال کی کچھ مقدار کسی اور شخص کوبھی دی جائے تواگراس کے مال کاتیسراحصہ دونوں مال کے لئے کافی نہ ہواورورثاء اس زیادہ مقدارکی اجازت دینے پرتیارنہ ہوں توضروری ہے پہلے جومال اس نے بخشاہے وہ تیسرے حصے سے دے دیں اوراس کے بعدجو مال باقی بچے وہ وصیت کے مطابق خرچ کریں ۔

مسئلہ (۲۷۲۷)اگرکوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے مال کاتیسراحصہ بیچاجائے اوراس کی آمدنی ایک معین کام میں خرچ کی جائے تواس کے کہنے کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ (۲۷۲۸)اگرکوئی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وہ مرجائے یہ کہے کہ وہ اتنی مقدار میں کسی شخص کامقروض ہے تواگراس پریہ تہمت لگائی جائے کہ اس نے یہ بات ورثاء کونقصان پہنچانے کے لئے کی ہے توجومقدار قرضے کی اس نے معین کی ہے وہ اس کے تیسرے حصے سے دی جائے گی اوراگراس پریہ تہمت نہ لگائی جائے تواس کااقرار نافذ ہے اورقرضہ اس کے اصل مال سے اداکرناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۷۲۹)جس شخص کے لئے انسان وصیت کرے کہ کوئی چیزاسے دی جائے یہ ضروری نہیں کہ وصیت کرنے کے وقت وہ موجود ہو پس وہ شخص وصیت کرنے والے کے بعد موجود ہوتو ضروری ہے کہ اس چیز کو اسے دے دیں اور اگرموجود نہ ہوتو چنانچہ اس کی وصیت ایک سے زیادہ مقاصد کے لئے سمجھی جائے توضروری ہے کہ اس مال کوکسی ایسے دوسرے کام میں صرف کیاجائے جووصیت کرنے والے کے مقصد سے زیادہ قریب ہوورنہ ورثاء خود اسے آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں ،لیکن اگروصیت کرے کہ مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیز کسی شخص کا مال ہوگی تو اگروہ وصیت کرنے والے کی موت کے وقت موجود ہو تو اگر چہ حمل ہی کی شکل میں کیوں نہ ہوجس میں روح ابھی نہیں پڑی ہے تو وہ وصیت صحیح ہے ورنہ باطل ہے اورجس چیز کی اس شخص کے لئے وصیت کی گئی ہو ورثاء اسے آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۳۰)اگرانسان کوپتاچلے کہ کسی نے اسے وصی بنایاہے تواگروہ وصیت کرنے والے کواطلاع دے دے کہ وہ وصیت پرعمل کرنے پرآمادہ نہیں ہے تولازم نہیں کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس وصیت پرعمل کرے،لیکن اگروصیت کنندہ کے مرنے سے پہلے انسان کویہ پتانہ چلے کہ اس نے اسے وصی بنایاہے یاپتاچل جائے،لیکن اسے یہ اطلاع نہ دے کہ وہ (یعنی جسے وصی مقررکیاگیاہے) اس کی (یعنی موصی کی) وصیت پر عمل کرنے پرآمادہ نہیں ہے تواگروصیت پرعمل کرنے میں کوئی زحمت نہ ہو توضروری ہے کہ اس کی وصیت پرعمل درآمد کرے نیز اگرموصی کے مرنے سے پہلے وصی کسی وقت اس امر کی جانب متوجہ ہوکہ مرض کی شدت کی وجہ سے یاکسی اورعذر کی بناپر موصی کسی دوسرے شخص کو وصیت نہیں کرسکتاتو(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ وصی وصیت کوقبول کرلے۔

مسئلہ (۲۷۳۱)جس شخص نے وصیت کی ہواگروہ مرجائے تووصی کویہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو میت کاوصی معین کرے اورخودان کاموں سے کنارہ کش ہوجائے،لیکن اگر اسے علم ہوکہ مرنے والے کامقصد یہ نہیں تھاکہ خودوصی ہی ان کاموں کوانجام دینے میں شریک ہوبلکہ اس کامقصد فقط یہ تھاکہ کام کردیئے جائیں تووصی کسی دوسرے شخص کو ان کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنی طرف سے وکیل مقررکرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۷۳۲)اگرکوئی شخص دوافراد کواکٹھے وصی بنائے تواگران دونوں میں سے ایک مرجائے یادیوانہ یاکافرہوجائے تو اگر وصیت کی تحریر سے یہ سمجھا جائے کہ اس صورت میں وہ دوسرا مستقل وصی ہے تو ضروری ہے کہ اس پرعمل کرے ورنہ حاکم شرع اس کی جگہ ایک اورشخص کووصی مقرر کرے گااوراگردونوں مرجائیں یاکافریادیوانے ہوجائیں توحاکم شرع دوسرے کو اس کی جگہ معین کرے گا،لیکن اگرایک شخص وصیت پر عمل کرسکتاہوتودو اشخاص کامعین کرنا لازم نہیں ۔

مسئلہ (۲۷۳۳)اگروصی تنہاخواہ وکیل مقررکرکے یادوسرے کواجرت دے کرمتوفی کے کام انجام نہ دے سکے توحاکم شرع اس کی مدد کے لئے ایک اورشخص مقررکرے گا۔

مسئلہ (۲۷۳۴)اگرمتوفی کے مال کی کچھ مقداروصی کے ہاتھ سے تلف ہوجائے تو اگر وصی نے اس کی نگہداشت میں کوتاہی یاتعدی کی ہو،مثلاً اگرمتوفی نے اسے وصیت کی ہو کہ مال کی اتنی مقدار فلاں شہرکے فقیروں کودے دے اوروصی مال کو دوسرے شہرلے جائے اوروہ راستے میں تلف ہوجائے تووہ ذمے دارہے اور اگراس نے کوتاہی یاتعدی نہ کی ہوتوذمے دار نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۷۳۵)اگرانسان کسی شخص کووصی مقررکرے اور کہے کہ اگروہ شخص (یعنی وصی) مرجائے توپھر فلاں شخص وصی ہوگاتوجب پہلا وصی مرجائے تودوسرے وصی کے لئے متوفی کے کام انجام دیناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۷۳۶)جو حج متوفی پر مستطیع ہونے کی بناءواجب ہوا ہے نیز قرضہ اور مالی واجبات مثلاً خمس، زکوٰۃ اور ردّ مظالم جن کااداکرناواجب ہوانہیں متوفی کے اصل مال سے اداکرناضروری ہے خواہ متوفی نے ان کے لئے وصیت نہ بھی کی ہو لیکن کفارے اور نذریں نیز نذری حج وصیت کی صورت میں ایک تہائی مال سے ادا کیا جائے گا۔

مسئلہ (۲۷۳۷)اگرمتوفی کاترکہ قرضے سے اور واجب حج سے اوران شرعی واجبات سے جواس پرواجب ہوں مثلاً خمس ،زکوٰۃ اور ردّ مظالم سے زیادہ ہوتواگراس نے وصیت کی ہوکہ اس کے مال کاتیسرا حصہ یاتیسرے حصے کی کچھ مقدار ایک معین مصرف میں لائی جائے تواس کی وصیت پرعمل کرناضروری ہے اور اگر وصیت نہ کی ہوتوجوکچھ بچے وہ ورثاء کا مال ہے۔

مسئلہ (۲۷۳۸)جومصرف متوفی نے معین کیاہواگروہ اس کے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ ہو تومال کے تیسرے حصے سے زیادہ کے بارے میں اس کی وصیت اس صورت میں صحیح ہے جب ورثاء کوئی ایسی بات یاایساکام کریں جس سے معلوم ہو کہ انہوں نے وصیت کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے اوران کا صرف قلباً راضی ہوناکافی نہیں ہے اوراگروہ موصی کی رحلت کے کچھ عرصے بعد بھی اجازت دیں توصحیح ہے اور اگر بعض ورثاء اجازت دے دیں اور بعض وصیت کوردکردیں توجنہوں نے اجازت دی ہو ان کے حصوں کی حدتک وصیت صحیح اورنافذ ہے۔

مسئلہ (۲۷۳۹)جومصرف متوفی نے معین کیاہواگراس پراس کے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ لاگت آتی ہو اوراس کے مرنے سے پہلے ورثاء اس مصرف کی اجازت دے دیں تو اس کے مرنے کے بعدوہ اپنی دی ہوئی اجازت سے منحرف نہیں ہوسکتے اور اگر وصیت کرنے والے کی زندگی ہی میں انکار کردیں تو مرنے کے بعد اجازت دے سکتے ہیں لیکن اگر مرنے کے بعدانکار کردے توبعد میں اجازت دینے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

مسئلہ (۲۷۴۰)اگرمرنے والاوصیت کرے کہ اس کے مال کے تیسرے حصے سے خمس اورزکوٰۃ یاکوئی قرضہ جواس کے ذمے ہودیاجائے اوراس کی قضانمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقررکیاجائے اورکوئی مستحب کام مثلاً فقیروں کوکھاناکھلانابھی انجام دیاجائے توضروری ہے کہ پہلے اس کاقرضہ مال کے تیسرے حصے سے دیاجائے اور اگر کچھ بچ جائے تونمازوں اور روزوں کے لئے اجیرمقررکیاجائے اور اگرپھربھی کچھ بچ جائے توجومستحب کام اس نے معین کیاہواس پرصرف کیاجائے اوراگراس کے مال کا تیسرا حصہ صرف اس کے قرضے کے برابر ہواورورثاء بھی تہائی مال سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہ دیں تونماز، روزوں اور مستحب کاموں کے لئے کی گئی وصیت باطل ہے۔

مسئلہ (۲۷۴۱)اگرکوئی شخص وصیت کرے کہ اس کاقرضہ اداکیاجائے اوراس کی نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقررکیاجائے اورکوئی مستحب کا م بھی انجام دیا جائے تو اگر اس نے یہ وصیت نہ کی ہوکہ یہ چیزیں مال کے تیسرے حصے سے دی جائیں تو ضروری ہے کہ اس کاقرضہ اصل مال سے دیاجائے اورپھرجو کچھ بچ جائے اس کاتیسرا حصہ نماز، روزوں (جیسی عبادات) اوران مستحب کاموں کے مصرف میں لایاجائے جواس نے معین کئے ہیں اوراس صورت میں جب کہ تیسراحصہ (ان کاموں کے لئے) کافی نہ ہواگر ورثاء اجازت دیں تواس کی وصیت پرعمل کرناچاہئے اوراگروہ اجازت نہ دیں تو نمازاور روزوں کی قضا کی اجرت مال کے تیسرے حصے سے دینی چاہئے اوراگراس میں سے کچھ بچ جائے تووصیت کرنے والے نے جومستحب کام معین کیاہواس پرخرچ کرناچاہئے۔

مسئلہ (۲۷۴۲)اگرکوئی شخص کہے کہ: مرنے والے نے وصیت کی تھی کہ اتنی رقم مجھے دی جائے تو اگردو عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کردیں یاوہ قسم کھائے اور ایک عادل شخص اس کے قول کی تصدیق کردے یاایک عادل مرد اوردوعادل عورتیں یاپھرچار عادل عورتیں اس کے قول کی گواہی دیں توجتنی مقداروہ بتائے اسے دے دینی ضروری ہے اور اگر ایک عادل عورت گواہی دے توضروری ہے کہ جس چیز کاوہ مطالبہ کررہاہواس کا چوتھا حصہ اسے دیاجائے اوراگردوعادل عورتیں گواہی دیں تواس کانصف دیاجائے اوراگر تین عادل عورتیں گواہی دیں تو اس کاتین چوتھائی دیاجائے نیزاگردوکتابی اہل ذمہ کافر مردجو اپنے مذہب میں عادل ہوں اس کے قول کی تصدیق کریں اور کوئی ایسا مسلمان گواہی دینے والا نہ ہوتووہ شخص متوفی کے مال سے جس چیزکامطالبہ کررہاہووہ اسے دے دینی ضروری ہے۔

مسئلہ (۲۷۴۳)اگرکوئی شخص کہے کہ میں متوفی کاوصی ہوں تاکہ اس کے مال کوفلاں مصرف میں لے آؤں تو اس صورت میں قبول کرناچاہئے جب کہ دوعادل مرداس کے قول کی تصدیق کریں یا دو اہل ذمہ مرد جو اپنے دین میں عادل ہوں اگر کوئی ایسا مسلمان نہ ہو جو گواہی دے سکے تواس کے قول کی تصدیق کریں اور اسی طرح ورثہ کے اقرار سے بھی ثابت ہوجائےگا۔

مسئلہ (۲۷۴۴)اگرمرنے والاوصیت کرے کہ اس کے مال کی اتنی مقدارفلاں شخص کی ہوگی اوروہ شخص وصیت کوقبول کرنے یاردکرنے سے پہلے مرجائے توجب تک اس کے ورثاء وصیت کوردنہ کردیں وہ اس چیز کو قبول کرسکتے ہیں ،لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے کہ وصیت کرنے والااپنی وصیت سے منحرف نہ ہوجائے ورنہ وہ اس چیزپرکوئی حق نہیں رکھتے۔

میراث کے احکام

مسئلہ (۲۷۴۵)جواشخاص متوفی سے رشتے داری کی بناپرترکہ پاتے ہیں ان کے تین گروہ ہیں :

۱:
) پہلا گروہ متوفی کاباپ،ماں اوراولادہے اوراولادکے نہ ہونے کی صورت میں اولاد کی اولادہے جہاں تک یہ سلسلہ نیچے چلاجائے۔ان میں سے جوکوئی متوفی سے زیادہ قریب ہو وہ ترکہ پاتاہے اورجب تک اس گروہ میں سے ایک شخص بھی موجودہو دوسرا گروہ ترکہ نہیں پاتا۔

۲:
)دوسراگروہ دادا، دادی، نانا،نانی، بہن اوربھائی ہے اوربھائی اوربہن نہ ہونے کی صورت میں ان کی اولادہے۔ ان میں سے جوکوئی متوفی سے زیادہ قریب ہووہ ترکہ پاتا ہے اورجب تک اس گروہ میں سے ایک شخص بھی موجود ہوتیسراگروہ ترکہ نہیں پاتا۔

۳:
)تیسراگروہ چچا،پھوپھی،ماموں ،خالہ اوران کی اولادہے اورجب تک متوفی کے چچا، پھوپھی، ماموں اورخالہ میں سے ایک شخص بھی زندہ ہوان کی اولاد ترکہ نہیں پاتی، لیکن اگر متوفی کاپدری چچااور ماں باپ دونوں کی طرف سے چچازادبھائی موجود ہو تو ترکہ باپ اورماں کی طرف سے چچازاد بھائیوں کوملے گا اورپدری چچا کونہیں ملے گا،لیکن اگرچچایاچچازاد بھائی متعددہوں یامتوفی کی بیوی زندہ ہوتویہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

مسئلہ (۲۷۴۶)اگرخود متوفی کاچچا،پھوپھی،ماموں ،خالہ اوران کی اولادیاان کی اولاد کی اولادنہ ہوتواس کے باپ اورماں کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ ترکہ پاتے ہیں اوراگروہ نہ ہوں توان کی اولاد ترکہ پاتی ہے اوراگروہ بھی نہ ہوتو متوفی کے دادا، دادی اورنانا، نانی کے چچا، پھوپھی، ماموں اورخالہ ترکہ پاتے ہیں اوراگر وہ بھی نہ ہوں تو ان کی اولاد ترکہ پاتی ہے۔

مسئلہ (۲۷۴۷) بیوی اورشوہر جیساکہ بعدمیں تفصیل سے بتایاجائے گاایک دوسرے سے ترکہ پاتے ہیں ۔

پہلے گروہ کی میراث

مسئلہ (۲۷۴۸)اگرپہلے گروہ میں صرف ایک شخص متوفی کاوارث ہو مثلاً باپ یاماں یااکلوتابیٹایااکلوتی بیٹی ہوتومتوفی کاتمام مال اسے ملتاہے اوراگربیٹے اوربیٹیاں وارث ہوں تومال کویوں تقسیم کیاجاتاہے کہ ہربیٹا،بیٹی سے دگناحصہ پاتاہے۔

مسئلہ (۲۷۴۹)اگرمتوفی کے وارث فقط اس کاباپ اوراس کی ماں ہوں تومال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دوحصے باپ اورایک حصہ ماں کوملتاہے۔لیکن اگر متوفی کے دوبھائی یاچاربہنیں یاایک بھائی اوردوبہنیں ہوں جو سب کے سب مسلمان، آزاد اورایک باپ کی اولاد ہوں خواہ ان کی ماں حقیقی ہویاسوتیلی ہواورسب پیدا ہوچکے ہوں تواگرچہ وہ متوفی کے باپ اورماں کے ہوتے ہوئے ترکہ نہیں پاتے لیکن ان کے ہونے کی وجہ سے ماں کومال کاچھٹاحصہ ملتاہے اورباقی مال باپ کوملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۵۰)جب متوفی کے وارث فقط اس کاباپ، ماں اورایک بیٹی ہو، لہٰذا اگر اس کے گذشتہ مسئلے میں بیان کردہ شرائط کے مطابق بھائی اور بہن نہ ہوں تومال کے پانچ حصے کئے جاتے ہیں ۔باپ اور ماں ان میں سے ایک ایک حصہ لیتے ہیں اور بیٹی تین حصے لیتی ہے اوراگرمتوفی کے سابقہ بیان کردہ شرائط کے مطابق بھائی یا بہن ہوں تو باپ کو پانچواں حصہ اور ماں کو چھٹا حصہ اور بیٹی کو پانچ حصہ میں تین حصہ ملے گا اور باقی بچ جانے والے تیسویں حصہ کی بابت احتمال ہےکہ ماں کاحصہ قر ار پائے گا جس طرح احتمال ہے کہ اس کا چوتھے کا تیسرا حصہ لڑکی کاہے اور چوتھا باپ کا ہو اور( احتیاط واجب کی بناپر)باہمی طورپرمصالحت کریں ۔

مسئلہ (۲۷۵۱)اگرمتوفی کے وارث فقط اس کاباپ، ماں اورایک بیٹاہوتومال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں ،جن میں سے باپ اورماں کوایک ایک حصہ اوربیٹے کوچار حصے ملتے ہیں اوراگرمتوفی کے (صرف) چندبیٹے ہوں یا(صرف) چندبیٹیاں ہوں تووہ ان چارحصوں کوآپس میں مساوی طورپرتقسیم کر لیتے ہیں اور اگربیٹے بھی ہوں اور بیٹیاں بھی ہو ں توان چارحصوں کواس طرح تقسیم کیاجاتاہے کہ ہربیٹے کو ایک بیٹی سے دگناملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۵۲)اگرمتوفی کے وارث فقط باپ یاماں اورایک یاکئی بیٹے ہوں تومال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یاماں کواورپانچ حصے بیٹے کو ملتے ہیں اوراگرکئی بیٹے ہوں تو وہ ان پانچ حصوں کوآپس میں مساوی طورپر تقسیم کرلیتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۵۳)اگرباپ یاماں متوفی کے بیٹوں اوربیٹیوں کے ساتھ اس کے وارث ہوں تومال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یاماں کوملتاہے اور باقی حصوں کویوں تقسیم کیاجاتاہے کہ ہر بیٹے کوبیٹی سے دگناحصہ ملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۵۴) اگرمتوفی کے وارث فقط باپ یاماں اورایک بیٹی ہوں تومال کے چار حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یاماں کواورباقی تین حصے بیٹی کوملتے ہیں۔

مسئلہ (۲۷۵۵)اگرمتوفی کے وارث فقط باپ یاماں اورچند بیٹیاں ہوں تومال کے پانچ حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ باپ یاماں کوملتاہے اور چار حصے بیٹیاں آپس میں مساوی طورپرتقسیم کرلیتی ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۵۶)اگرمتوفی کی اولاد نہ ہوتواس کے بیٹے کی اولادخواہ وہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو متوفی کے بیٹے کاحصہ پاتی ہے اوربیٹی کی اولادخواہ وہ بیٹا ہی کیوں نہ ہو متوفی کی بیٹی کاحصہ پاتی ہےمثلاً اگرمتوفی کاایک نواسا اورایک پوتی ہوتومال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ نواسے کواوردوحصے پوتی کوملیں گے نواسوں اور پوتوں کے میراث پانے میں ماں باپ کا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔

دوسرے گروہ کی میراث

مسئلہ (۲۷۵۷)جولوگ رشتہ داری کی بناپر میراث پاتے ہیں ان کادوسرا گروہ متوفی کا دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی اوربہنیں ہیں اور اگراس کے بھائی بہنیں نہ ہوں توان کی اولاد میراث پاتی ہے۔

مسئلہ (۲۷۵۸)اگرمتوفی کاوارث فقط ایک بھائی یاایک بہن ہو توسارا مال اس کو ملتا ہے اوراگرکئی سگے بھائی یاکئی سگی بہنیں ہوں تومال ان میں برابرتقسیم ہوجاتاہے اور اگر سگے بھائی بھی ہوں اوربہنیں بھی تو ہربھائی کوبہن سے دگناحصہ ملتاہے مثلاً اگرمتوفی کے دو سگے بھائی اور ایک سگی بہن ہوتومال کے پانچ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ہر بھائی کودوحصے ملیں گے اوربہن کوایک حصہ ملے گا۔

مسئلہ (۲۷۵۹)اگرمتوفی کے سگے بہن بھائی موجود ہوں توپدری بھائی اور بہنیں جن کی ماں متوفی کی سوتیلی ماں ہومیراث نہیں پاتے اور اگراس کے سگے بہن بھائی نہ ہوں اورفقط ایک پدری بھائی ہوں یاایک پدری بہن ہو توسارامال اس کوملتا ہے اوراگراس کے کئی پدری بھائی یاکئی پدری بہنیں ہوں تومال ان کے درمیان مساوی طورپرتقسیم ہو جاتا ہے اوراگراس کے پدری بھائی بھی ہوں اورپدری بہنیں بھی توہربھائی کوبہن سے دگنا حصہ ملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۶۰)اگرمتوفی کاوارث فقط ایک مادری بہن یابھائی ہوجوباپ کی طرف سے متوفی کی سوتیلی بہن یاسوتیلابھائی ہوتوسارامال اسے ملتا ہے اور اگرچند مادری بھائی ہوں یاچندمادری بہنیں ہوں یاچندمادری بھائی اوربہنیں ہوں تومال ان کے درمیان مساوی طورپرتقسیم ہوجاتاہے۔

مسئلہ (۲۷۶۱)اگرمتوفی کے سگے بھائی بہنیں اورپدری بھائی بہنیں اورایک مادری بھائی یاایک مادری بہن ہوتوپدری بھائی بہنوں کوترکہ نہیں ملتااورمال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ مادری بھائی یامادری بہن کوملتاہے اور باقی حصے سگے بھائی بہنوں کوملتے ہیں اور ہربھائی دوبہنوں کے برابر حصہ پاتاہے۔

مسئلہ (۲۷۶۲)اگرمتوفی کے سگے بھائی بہنیں اورپدری بھائی بہنیں اور چندمادری بھائی بہنیں ہوں توپدری بھائی بہنوں کوترکہ نہیں ملتااورمال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ مادری بھائی بہنیں آپس میں برابر برابرتقسیم کرتے ہیں اورباقی دو حصے سگے بھائی بہنوں کواس طرح دیئے جاتے ہیں کہ ہر بھائی کاحصہ بہن سے دگناہوتا ہے۔

مسئلہ (۲۷۶۳)اگرمتوفی کے وارث صرف پدری بھائی بہنیں اورایک مادری بھائی یا ایک مادری بہن ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ مادری بھائی یامادری بہن کوملتاہے اورباقی حصے پدری بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کئے جاتے ہیں کہ ہربھائی کوبہن سے دگناحصہ ملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۶۴)اگرمتوفی کے وارث فقط پدری بھائی بہنیں اورچندمادری بھائی بہنیں ہوں تومال کے تین حصے کئے جاتے ہیں ۔ان میں سے ایک حصہ مادری بھائی بہنیں آپس میں برابربرابرتقسیم کرلیتے ہیں اورباقی دوحصے پدری بہن بھائیوں کواس طرح ملتے ہیں کہ ہربھائی کاحصہ بہن سے دگناہوتاہے۔

مسئلہ (۲۷۶۵)اگرمتوفی کے وارث فقط اس کے بھائی بہنیں اوربیوی ہوں تو بیوی اپنا ترکہ اس تفصیل کے مطابق لے گی جوبعد میں بیان کی جائے گی اور بھائی بہنیں اپنا ترکہ اس طرح لیں گے جیساکہ گذشتہ مسائل میں بتایا گیاہے نیزاگرکوئی عورت مرجائے اوراس کے وارث فقط اس کے بھائی بہنیں اور شوہر ہوں تونصف مال شوہر کو ملے گااور بہنیں اوربھائی اس طریقے سے ترکہ پائیں گے جس کاذکر گذشتہ مسائل میں کیا گیاہے، لیکن بیوی یا شوہر کے ترکہ پانے کی وجہ سے مادری بھائی بہنوں کے حصے میں کوئی کمی نہیں ہوگی تاہم سگے بھائی بہنوں یاپدری بھائی بہنوں کے حصے میں کمی ہوگی مثلاًاگرکسی متوفیہ کے وارث اس کاشوہر اورمادری بہن بھائی او رسگے بہن بھائی ہوں تونصف مال شوہر کو ملے گااوراصل کے تین حصوں میں سے ایک حصہ مادری بہن بھائیوں کوملے گا اور جو کچھ بچے وہ سگے بہن بھائیوں کامال ہوگا۔پس اگراس کاکل مال چھ روپے ہوتوتین روپے شوہر کو اور دوروپے مادری بہن بھائیوں کواورایک روپیہ سگے بہن بھائیوں کوملے گا۔

مسئلہ (۲۷۶۶)اگرمتوفی کے بھائی بہنیں نہ ہوں توان کے ترکے کاحصہ ان کو (یعنی بھائی بہنوں کی) اولاد کوملے گااورمادری بھائی بہنوں کی اولاد کاحصہ ان کے مابین برابر تقسیم ہوتاہے اورجوحصہ پدری بھائی بہنوں کی اولاد یاسگے بھائی بہنوں کی اولاد کوملتاہے اس کے بارے میں مشہورہے کہ ہر لڑکادولڑکیوں کے برابرحصہ پاتاہے،لیکن کچھ بعید نہیں ہے کہ ان کے مابین بھی ترکہ برابربرابر تقسیم ہواور(احتیاط واجب یہ ہے کہ) وہ مصالحت کریں ۔

مسئلہ (۲۷۶۷)اگرمتوفی کاوارث فقط دادایافقط دادی یافقط نانا یافقط نانی ہوتو متوفی کا تمام مال اسے ملے گااوراگرمتوفی کادادایاناناموجود ہوتواس کے باپ (یعنی متوفی کے پردادا یاپرنانا)کوترکہ نہیں ملتااوراگر متوفی کے وارث فقط اس کے دادا اور دادی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں : جن میں سے دوحصے دادا کواورایک حصہ دادی کوملتا ہے اور اگر وہ نانا اور نانی ہوں تووہ مال کوبرابربرابر تقسیم کرلیتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۶۸)اگرمتوفی کے وارث دادایادادی اور نانایانانی ہوں تومال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے دوحصے دادایادادی کو ملیں گے اورایک حصہ نانا یا نانی کوملے گا۔

مسئلہ (۲۷۶۹) اگرمتوفی کے وارث دادااوردادی اورنانااورنانی ہوں تومال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ نانااورنانی آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں اورباقی دوحصے دادا اور دادی کوملتے ہیں جن میں داداکا حصہ دوگنا ہوتاہے۔

مسئلہ (۲۷۷۰)اگرمتوفی کے وارث فقط اس کی بیوی اوردادا،دادی اورنانا،نانی ہوں توبیوی اپنا حصہ اس تفصیل کے مطابق لیتی ہے جوبعدمیں بیان ہوگی اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصہ نانااور نانی کوملتاہے جووہ آپس میں برابربرابر تقسیم کرتے ہیں اورباقی ماندہ (یعنی بیوی اورنانا،نانی کے بعد جو کچھ بچے) دادااور دادی کو ملتاہے جس میں سے دادا، دادی کے مقابلے میں دگنالیتاہے اور اگرمتوفی کے وارث اس کا شوہر اور دادا یانانا اور دادی یا نانی ہوں توشوہر کو نصف مال ملتاہے اور دادا، نانا اور دادی، نانی ان احکام کے مطابق ترکہ پاتے ہیں جن کاذکر گزشتہ مسائل میں ہوچکاہے۔

مسئلہ (۲۷۷۱)بھائی یابہن یابھائیوں یابہنوں کے ساتھ دادا یا دادی یا نانا یا نانی یا داداؤں یا دادیوں یا ناناؤں یا نانیوں کے اجتماع کی متعدد صورتیں ہیں :

اول:نانایانانی اوربھائی یابہن سب ماں کی طرف سے ہوں ۔اس صورت میں مال ان کے درمیان مساوی طورپرتقسیم ہوجاتاہے اگرچہ وہ مذکر اور مؤنث کی حیثیت سے مختلف ہوں ۔

دوم:دادا یادادی کے ساتھ بھائی یابہن باپ کی طرف سے ہوں ۔اس صورت میں بھی ان کے مابین مال مساوی طورپرتقسیم ہوتاہے،اس صورت میں کہ وہ سب مرد ہوں یا سب عورتیں ہوں اوراگرمرداور عورتیں ہوں توپھرہرمردہرعورت کے مقابلے میں دگنا حصہ لیتا ہے۔

سوم:دادا یادادی کے ساتھ سگے بھائی یابہن ہوں اس صورت میں بھی وہی حکم ہے جوگزشتہ صورت میں ہے اوریہ جانناچاہئے کہ اگر متوفی کے پدری بھائی یابہن،سگے بھائی یا بہن کے ساتھ جمع ہوجائیں تو صرف پدری بھائی یابہن میراث نہیں پاتے ۔

چہارم:داداؤں یا دادیوں یاناناؤں یا نانیوں یاسب دونوں طرف سے اور بھائیوں یا بہنوں یا اسی طرح دونوں بھی ہوں ۔ اس صورت میں جومادری رشتے داربھائی،بہن اورنانا،نانی ہوں ترکہ میں ان کاایک تہائی حصہ ہے اوران کے درمیان برابرتقسیم ہو جاتا ہے خواہ وہ مرد اور عورت کی حیثیت سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں اوران میں سے جوپدری رشتہ دار ہوں ان کا حصہ دوتہائی ہے جس میں سے ہرمردکو ہرعورت کے مقابلے میں دگناملتاہے اوراگران میں کوئی فرق نہ ہو اورسب مردیاسب عورتیں ہوں توپھروہ ترکہ ان میں برابربرابرتقسیم ہوجاتاہے۔

پنجم:دادایادادی، ماں کی طرف سے بھائی،بہن کے ساتھ جمع ہوجائیں اس صورت میں اگربہن یابھائی بالفرض ایک ہوتواسے مال کاچھٹاحصہ ملتاہے اوراگر کئی ہوں توتیسراحصہ ان کے درمیان برابربرابر تقسیم ہوجاتاہے اورجوباقی بچے وہ دادایا دادی کامال ہے اور اگردادااوردادی دونوں ہوں توداداکو دادی کے مقابلے میں دگناحصہ ملتا ہے۔

ششم:نانایانانی یادونوں ،باپ کی طرف سے بھائی یا بھائیوں کے ساتھ جمع ہو جائیں ۔اس صورت میں نانایانانی کا تیسراحصہ ہےاور اگر دونوں ہوں تو وہی ایک تہائی حصہ آپس میں برابر بانٹ لیں گے اور دو تہائی حصہ بھائی یا بھائیوں کےلئے ہے اوراگراس نانا یانانی کے ساتھ باپ کی طرف سے بہن ہو اوروہ ایک ہی ہوتووہ آدھا حصہ لیتی ہے اور اگرکئی بہنیں ہوں تودوتہائی لیتی ہیں اور ہر صورت میں نانایانانی کاحصہ ایک تہائی ہی ہے اور اگربہن ایک ہی ہوتوسب کے حصے دے کرترکے کاچھٹا حصہ بچ جاتاہے اسے بہن کو دینے میں شک ہےیا اس کے اور نانی و نانا کے درمیان تقسیم کرنے کا احتمال ہے اوراس کے بارے میں احتیاط واجب مصالحت میں ہے۔

ہفتم:کئی دادایادادیاں ہوں اورکچھ نانایا نانیاں ہوں یا یہ سب ہوں اور ان کے ساتھ پدری بھائی یابہن ہوخواہ وہ ایک ہی ہویاکئی ہوں اس صورت میں نانایانانی کاحصہ ایک تہائی ہے اور اگروہ زیادہ ہوں تویہ ان کے مابین مساوی طورپر تقسیم ہوجاتاہے خواہ وہ مرد اور عورت کی حیثیت سے مختلف ہی ہوں اورباقی ماندہ دوتہائی دادا یادادیوں اورپدری بھائی یابہن کاہے مردکو عورت کے حصہ سے دوگنا ملے گا اور اگران داداؤں یا نانیوں یادادیوں یا نانیوں کے ساتھ مادری بھائی یابہن ہوں تونانا یانانی کاحصہ مادری بھائی یابہن کے ساتھ ایک تہائی ہے جوان کے درمیان برابربرابرتقسیم ہوجاتاہے اگرچہ وہ بہ حیثیت مرداور عورت ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور دادا یا دادی کاحصہ دوتہائی ہے اور دادا کاحصہ دادی کے حصہ سے دوگنا ہے۔

ہشتم:بھائی اوربہنیں ہوں جن میں سے کچھ پدری اورکچھ مادری ہوں اور ان کے ساتھ دادایا دادی ہوں ۔ اس صورت میں اگرمادری بھائی یابہن ایک ہوتوترکے میں اس کاچھٹاحصہ ہے اوراگرایک سے زیادہ ہوں توتیسراحصہ ہے جوکہ ان کے مابین برابر برابر تقسیم ہوجاتاہے اورباقی ترکہ پدری بھائی یابہن اوردادایادادی کاہے جوان کے بحیثیت مرداورعورت مختلف نہ ہونے کی صورت میں ان کے مابین برابربرابر تقسیم ہوجاتا ہے اور مختلف ہونے کی صورت میں فرق سے تقسیم ہوتاہے اور اگران بھائیوں یابہنوں کے ساتھ نانایانانی ہوں تونانایانانی اورمادری بھائیوں کوملاکرسب کاحصہ ایک تہائی ہوتا ہے اوران کے مابین برابربرابر تقسیم ہوجاتاہے اورپدری بھائیوں یابہنوں کاحصہ دوتہائی ہوتاہےمرد کو خواتین کے حصےکےدو برابر ملتاہے ۔

مسئلہ (۲۷۷۲)اگرمتوفی کے بھائی یابہنیں ہوں توبھائیوں یابہنوں کی اولادکو میراث نہیں ملتی لیکن اگربھائی کی اولاد اوربہن کی اولاد کامیراث پانابھائیوں اور بہنوں کی میراث سے مزاحم نہ ہوتوپھراس حکم کااطلاق نہیں ہوتا۔ مثلاً اگرمتوفی کاپدری بھائی اور ناناہوتوپدری بھائی کومیراث کے دوحصہ اورنانا کوایک تہائی حصہ ملے گا اوراس صورت میں اگرمتوفی کے مادری بھائی کابیٹابھی ہوتوبھائی کابیٹاناناکے ساتھ ایک تہائی میں شریک ہوتاہے۔

تیسرے گروہ کی میراث

مسئلہ (۲۷۷۳)میراث پانے والوں کے تیسرے گروہ میں چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ اوران کی اولاد اور ان کی اولاد کی اولاد ہیں اور جیساکہ بیان ہوچکاہے اگرپہلے اور دوسرے گروہ میں سے کوئی وارث موجود نہ ہو توپھریہ لوگ ترکہ پاتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۷۴)اگرمتوفی کاوارث فقط ایک چچایاایک پھوپھی ہوتوخواہ وہ سگا ہو یعنی وہ اورمتوفی کے والد ایک ماں باپ کی اولاد ہوں چاہےپدری ہویا مادری‘ سارامال اسے ملتاہے اوراگرچندچچا یا چند پھوپھیاں ہوں اوروہ سب سگے یاسب پدری ہوں یا سب مادری ہوں توان کے درمیان مال برابر تقسیم ہوگا اور اگرچچا اورپھوپھی دونوں ہوں تو چچاکوپھوپھی سے دگناحصہ ملتاہے۔

مسئلہ (۲۷۷۵)اگرمتوفی کے وارث چچااورپھوپھیاں ہوں اوران میں سے کچھ پدری اورکچھ مادری اورکچھ سگے ہوں توپدری چچااورپھوپھیوں کوترکہ نہیں ملتااور اگرمتوفی کاایک مادری چچایاایک مادری پھوپھی ہوتومال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ مادری چچایاپھوپھی کودیاجاتاہے اورباقی حصے سگے چچاؤں اور پھوپھیوں کوملتے ہیں اوربالفرض اگرسگے چچااورپھوپھیاں نہ ہوں تودو حصے پدری چچاؤں اور پھوپھیوں کو ملتے ہیں اوراگرمتوفی کے مادری چچااورمادری پھوپھیاں بھی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دوحصے سگے چچاؤں اورپھوپھیوں کوملتے ہیں اوربالفرض اگرسگے چچااور پھوپھیاں نہ ہوں توپدری چچااور پدری پھوپھی کوترکہ ملتاہے اورایک حصہ مادری پھوپھی اور چچا کوملتاہے اور چچا کو پھوپھی سے ہر حال میں دگناحصہ ملے گا۔

مسئلہ (۲۷۷۶)اگرمتوفی کاوارث فقط ایک ماموں یاایک خالہ ہوتوسارا مال اسے ملتاہے اوراگرکئی ماموں بھی ہوں اورخالائیں بھی ہوں ( یعنی متوفی کی ماں کے سگے بھائی بہن ہوں )اورسب سگے یاپدری یامادری ہوں توبعیدنہیں کہ ماموں کوخالہ سے دگناترکہ ملے، لیکن برابربرابر ملنے کااحتمال بھی ہے، لہٰذا(احتیاط واجب کی بناء پر) زائد مال کے لئے آپس میں مصالحت کریں ۔

مسئلہ (۲۷۷۷)اگرمتوفی کاوارث فقط ایک یاچند مادری ماموں اورخالائیں اور سگے ماموں اورخالائیں ہوں اورپدری ماموں اورخالائیں ہوں توپدری ماموؤں اورخالاؤں کوترکہ نہ ملنامحل اشکال ہے بہر حال مادری ماموں یا مادری خالہ اگر ایک ہوں تو چھٹا حصہ اور اگر کئی ہوں تو ایک سوم مال ملے گا اور باقی مال پدری ماموں اور خالہ یا سگے ماموں اور خالہ کو دیا جائے گا اور ہر صورت میں یہ احتمال ہےکہ ماموں خالہ سے دوبرابر میراث لے لیکن (احتیاط واجب کی بناء پر) آپس میں مصالحت کرلیں ۔

مسئلہ (۲۷۷۸)اگر متوفی کے وارث ایک یا چند ماموں یا ایک یاچند خالائیں یا ماموں اور خالہ اور ایک یا چندچچا یا ایک یا چند پھوپھیاں یا چچا اور پھوپھی ہوں تو مال تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گاان میں سے ایک حصہ ماموں یا خالہ کو یا دونوں کو ملتا ہے اور باقی دو حصے چچا یا پھوپھی کو یا دونوں کو ملتے ہیں اور ان کےدرمیان تقسیم کی صورت پہلے بیان کی جاچکی ہے۔

مسئلہ (۲۷۷۹)اگرمتوفی کے چچااورپھوپھی اورماموں اورخالہ نہ ہوں تو مال کی جومقدار ان لوگوں کوملنی چاہئے وہ ان کی اولاد کو ملے گی لہٰذا اگر پھوپھی کی ایک بیٹی اور ماموں کے کئ بیٹے ہوں تو پھوپھی کی ایک بیٹی دوتہائی مال لے گی اور ماموں کے بیٹوں کے درمیان ایک سوم مال تقسیم ہوگا اور یہ طبقہ (چچا پھوپھی، ماموں اور خالہ کی اولاد) متوفی کے والد یا والدہ کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ پر مقدم ہیں ۔

مسئلہ (۲۷۸۰)اگرمتوفی کے وارث اس کے باپ کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ اوراس کی ماں کے چچا،پھوپھی، ماموں اورخالہ ہوں تومال کے تین حصے کئے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک حصہ متوفی کی ماں کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کوبطور میراث ملے گا اورمال ان کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے یا مال کو عورت کے دو برابر دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے اور احتیاط واجب یہ ہےکہ آپس میں مصالحت کریں اورباقی دوحصوں کے تین حصے کئے جاتے ہیں :ان میں سے ایک حصہ متوفی کے باپ کے ماموں اور خالہ اسی کیفیت کے مطابق آپس میں برابر برابر بانٹ لیتے ہیں اورباقی دوحصے بھی اسی کیفیت کے مطابق متوفی کے باپ کے چچا اور پھوپھی کوملتے ہیں ۔

بیوی اورشوہر کی میراث

مسئلہ (۲۷۸۱)اگرکوئی عورت بے اولاد مرجائے تواس کے سارے مال کانصف حصہ شوہر کواورباقی ماندہ دوسرے ورثاء کوملتاہے اوراگرکسی عورت کی پہلے شوہر سے یاکسی اور شوہرسے اولاد ہوتوسارے مال کا چوتھائی حصہ شوہر کواورباقی ماندہ دوسرے ورثاء کوملتا ہے۔

مسئلہ (۲۷۸۲)اگرکوئی آدمی مرجائے اوراس کی کوئی اولاد نہ ہو تواس کے مال کا چوتھائی حصہ اس کی بیوی کواورباقی دوسرے ورثاء کوملتاہے اوراگراس آدمی کی اس بیوی سے یاکسی اوربیوی سے اولاد ہوتومال کا آٹھواں حصہ بیوی کواورباقی دوسرے ورثاء کو ملتا ہے اور گھرکی زمین،باغ، کھیت اور دوسری زمینوں میں سے عورت نہ خودزمین بطور میراث حاصل کرتی ہے اورنہ ہی اس کی قیمت میں سے کوئی ترکہ پاتی ہے۔نیز وہ گھر کی فضامیں قائم چیزوں مثلاً عمارت اور درختوں سے ترکہ نہیں پاتی لیکن ان کی قیمت کی صورت میں ترکہ پاتی ہے اور جودرخت، کھیت اورعمارتیں باغ کی زمین،مزروعہ زمین اور دوسری زمینوں میں ہوں ان کابھی یہی حکم ہےلیکن وہ پھل جو شوہر کے انتقال کےموقع پر درختوں پر رہے ہوں اس میں سے زوجہ کو میراث ملے گی۔

مسئلہ (۲۷۸۳)جن چیزوں میں سے عورت ترکہ نہیں پاتی، مثلاً رہائشی مکان کی زمین اگروہ ان میں تصرف کرناچاہے تو ضروری ہے کہ دوسرے ورثاء سے اجازت لے اورورثاء جب تک عورت کاحصہ نہ دے دیں ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیران چیزوں میں مثلاً عمارتوں اور درختوں میں تصرف کریں جن کی قیمت سے وہ ترکہ پاتی ہے۔

مسئلہ (۲۷۸۴)اگرعمارت اوردرخت وغیرہ کی قیمت لگانامقصود ہوتوجیساکہ قیمت لگانے والوں کامعمول ہوتاہے کہ جس زمین میں وہ ہیں اس کی خصوصیت کوپیش نظر رکھے بغیر ان کاحساب کریں کہ ان کی کتنی قیمت ہے،نہ کہ انہیں زمین سے اکھڑے ہوئے فرض کرکے ان کی قیمت لگائیں اورنہ ہی ان کی قیمت کاحساب اس طرح کریں کہ وہ بغیر کرائے کے اس زمین میں اسی حالت میں باقی رہیں ۔

مسئلہ (۲۷۸۵)نہروں کاپانی بہنے کی جگہ اوراسی طرح کی دوسری جگہ زمین کاحکم رکھتی ہے اوراینٹیں اور دوسری چیزیں جواس میں لگائی گئی ہوں وہ عمارت کے حکم میں ہیں لیکن خودپانی سےمیراث ملے گی۔

مسئلہ (۲۷۸۶)اگرمتوفی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں ،لیکن اولاد کوئی نہ ہو تومال کا چوتھاحصہ اور اگراولاد ہوتو مال کاآٹھواں حصہ اس تفصیل کے مطابق جس کا بیان ہو چکا ہے سب بیویوں میں مساوی طورپرتقسیم ہوتاہے۔خواہ شوہر نے ان سب کے ساتھ یاان میں سے بعض کے ساتھ ہم بستری نہ بھی کی ہو۔لیکن اگراس نے ایک ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے اس کی موت واقع ہوئی ہے کسی عورت سے نکاح کیاہواور اس سے ہم بستری نہ کی ہوتووہ عورت اس سے ترکہ نہیں پاتی اوروہ مہر کاحق بھی نہیں رکھتی۔

مسئلہ (۲۷۸۷)اگرکوئی عورت مرض کی حالت میں کسی مردسے شادی کرے اور اسی مرض میں مرجائے توخواہ مردنے اس سے ہم بستری نہ بھی کی ہووہ اس کے ترکے میں حصے دار ہے۔

مسئلہ (۲۷۸۸)اگرعورت کواس ترتیب سے رجعی طلاق دی جائے جس کاذکر طلاق کے احکام میں کیاجاچکاہے اوروہ عدت کے دوران مرجائے توشوہر اس سے ترکہ پاتا ہے۔ اسی طرح اگرشوہر اس عدت کے دوران فوت ہوجائے توبیوی اس سے ترکہ پاتی ہے، لیکن عدت گزرنے کے بعدیابائن طلاق کی عدت کے دوران ان میں سے کوئی ایک مرجائے تودوسرااس سے ترکہ نہیں پاتا۔

مسئلہ (۲۷۸۹)اگرشوہر مرض کی حالت میں اپنی بیوی کوطلاق دے دے اوربارہ قمری مہینے گزرنے سے پہلے مرجائے توعورت تین شرطیں پوری کرنے پراس کی میراث سے ترکہ پاتی ہے: چاہے طلاق رجعی رہا ہو یا بائن۔

۱:
) عورت نے اس مدت میں دوسراشوہر نہ کیاہواوراگردوسراشوہر کیاہوتواسے میراث نہیں ملے گی اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ صلح کرلیں ۔

۲:
)طلاق عورت کی مرضی اور درخواست پرنہ ہوئی ہو۔ورنہ اسے میراث نہیں ملے گی خواہ طلاق حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنے شوہر کوکوئی چیزدی ہویانہ دی ہو۔

۳:
)شوہر نے جس مرض میں عورت کوطلاق دی ہواس مرض کے دوران اس مرض کی وجہ سے یاکسی اوروجہ سے مرگیاہو۔لہٰذا اگروہ اس مرض سے شفایاب ہوجائے اور کسی اوروجہ سے مرجائے تو عورت اس سے میراث نہیں پاتی مگر سوائے یہ کہ اس کا انتقال رجعی کی عدت میں ہوا ہو۔

مسئلہ (۲۷۹۰)جوکپڑے مردنے اپنی بیوی کوپہننے کے لئے فراہم کئے ہوں اگرچہ وہ ان کپڑوں کوپہن چکی ہوپھربھی شوہرکے مرنے کے بعدوہ شوہر کے مال کاحصہ ہوں گے سوائے اس صورت کے جب بیوی کی ملکیت میں قرار دیا ہو اور بیوی حق رکھتی ہے یہ نفقہ کےعنوان سےاپنے شوہر سےلباس کو ملکیت میں قرار دینے کا مطالبہ کرے۔

میراث کے مختلف مسائل

مسئلہ (۲۷۹۱)متوفی کاقرآن مجید،انگوٹھی، تلواراورجوکپڑے وہ پہن چکا ہو یا پہننے کے لئے اپنے پاس رکھا ہووہ بڑے بیٹے کامال ہے اوراگرپہلی تین چیزوں میں سے متوفی نے کوئی چیز ایک سے زیادہ چھوڑی ہوں ،مثلاً اس نے قرآن مجیدکے دونسخے یادوانگوٹھیاں چھوڑی ہوں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس کابڑابیٹاان کے بارے میں دوسرے ورثاء سے مصالحت کرے اور ان چیزوں کے ساتھ رحل، بندوق، خنجراوران جیسے دوسرے ہتھیاروں کو اور شمشیر کا غلاف اور قرآن کا صندوق بھی اس میں شامل ہے۔

مسئلہ (۲۷۹۲)اگر متوفی کے بڑے بیٹے ایک سے زیادہ ہوں ،مثلاً دوبیویوں سے دوبیٹے بیک وقت پیدا ہوں توجن چیزوں کاذکرکیاجاچکاہے انہیں برابربرابر آپس میں تقسیم کریں اور یہ حکم سب سے بڑے بیٹے کےلئے ہے اگر چہ اس کی بڑی بہن موجود ہو۔

مسئلہ (۲۷۹۳)اگرمتوفی مقروض ہوتواگراس کاقرض اس کے مال کے برابر یااس سے زیادہ ہوتوضروری ہے کہ بڑابیٹا اس مال سے بھی اس کاقرض اداکرے جواس کی ملکیت ہے اورجن کاسابقہ مسئلے میں ذکرکیاگیاہے یااس کی قیمت کے برابراپنے مال سے دے اور اگرمتوفی کاقرض اس کے مال سے کم ہواورذکر شدہ چندچیزوں کے علاوہ جو باقی مال اسے میراث میں ملاہواگروہ بھی اس کاقرض اداکرنے کے لئے کافی نہ ہوتو ضروری ہے کہ بڑا بیٹاان چیزوں سے یااپنے مال سے اس کاقرض دے اور اگرباقی مال قرض اداکرنے کے لئے کافی ہوتب بھی احتیاط لازم یہ ہے کہ بڑابیٹاجیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے قرض اداکرنے میں شرکت کرے،مثلاً اگرمتوفی کاتمام مال ساٹھ روپے کاہواوراس میں سے بیس روپے کی وہ چیزیں ہوں جوبڑے بیٹے کامال ہیں اوراس پرتیس روپے قرض ہو توبڑے بیٹے کوچاہئے کہ ان چیزوں میں سے دس روپے متوفی کے قرض کے سلسلے میں دے۔

مسئلہ (۲۷۹۴)مسلمان کافرسے ترکہ پاتاہے لیکن کافرخواہ وہ مسلمان متوفی کا باپ یابیٹاہی کیوں نہ ہواس سے ترکہ نہیں پاتا۔

مسئلہ (۲۷۹۵)اگرکوئی شخص اپنے رشتے داروں میں سے کسی کوجان بوجھ کراور ناحق قتل کردے تووہ اس سے ترکہ نہیں پاتا اور اگر حق کی بناء پر قتل کرے جیسے قصاص، یاحد جاری کرتے ہوئے یا دفاع کرتے ہوئے مارےتو میراث پائے گا،لیکن اگروہ شخص غلطی سے ماراجائے، مثلاً کوئی شخص (غلیل سے) ہوامیں پتھر پھینکے (یا ہوائی فائرنگ کرے) اوروہ اتفاقاً اس کے کسی رشتے دار کولگ جائے اوروہ مرجائے تووہ مرنے والے سے ترکہ پائے گا،لیکن قتل کی دیت سے جسے عاقلہ (خاندان والے) دیں گے اس سے میراث نہیں لے گااور اسی طرح وہ قتل جو شبہ عمد ہو( یعنی وہ کام کرے جو معمولاً قتل کا سبب نہیں ہوتا اور قتل کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن مقتول کے ساتھ اس کام کےکرنے کا ارادہ تھا)تو یہ میراث کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۷۹۶)جب کسی متوفی کے ورثاء ترکہ تقسیم کرناچاہیں تووہ بچہ جوابھی ماں کے پیٹ میں ہواوراگرزندہ پیداہوتومیراث کاحق دار ہوگااس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہوکہ ایک بچہ ہے یا متعدد، لڑکا ہے یا لڑکی اگر چہ یہ معلومات جدید وسائل کے ذریعہ ہی سے کیوں نہ ہو ضروری ہےکہ اس کا یاان سب کا حصہ محفوظ رکھاجائے اور اگر معلوم نہ ہو پائے لیکن معتبر احتمال دیا جائے کہ کئی بچے ہیں تو احتمال عدد کے مطابق لڑکے کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ مثلاً ایک بیٹا یا ایک بیٹی پیدا ہو ں تو زیادہ آنے والے مال کو ورثہ آپس میں تقسیم کریں گے۔

چند فِقہی اصطلاحات ← → وقف کے احکام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français